Tafseer-e-Mazhari - Al-Insaan : 3
اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا
اِنَّا : بیشک ہم هَدَيْنٰهُ : ہم نے اسے دکھائی السَّبِيْلَ : راہ اِمَّا : خواہ شَاكِرًا : شکر کرنے والا وَّاِمَّا : اور خواہ كَفُوْرًا : ناشکرا
(اور) اسے رستہ بھی دکھا دیا۔ (اب) وہ خواہ شکرگزار ہو خواہ ناشکرا
انا ھدینہ السبیل . ہم نے اسکے لیے راستہ کھول دیا یعنی پیغمبر بھیج کر ‘ کتابیں اتار کر اور (انفسی و آفاقی) دلائل قائم کر کے ‘ اللہ کے قرب ‘ اللہ کی خوشنودی اور اللہ کی جنت تک پہنچنے کا راستہ انسان کے لیے کھول دیا۔ ہدایت سے اس جگہ مراد ہے راستہ دکھانا ‘ مقصود تک پہنچانا مراد نہیں ہے اس کے برخلاف آیت : اھدنا الصراط المستقیم میں مقصد تک پہنچانا مراد ہے۔ اما شاکرا و اما کفورا . شاکرا اور کفورا ‘ ھدینہ کی ضمیر۔ ہ۔ سے حال ہیں۔ یعنی نسان یا ہماری ہدایت کا شکر گزرا ہوگا اور اس کو قبول کرلے گا یا کفران نعمت اور ناشکری کرے گا۔ دونوں باتوں میں سے ایک ضرور ہوگی بعض لوگوں نے السبیل سے حال قرار دیا ہے۔ یعنی ہم نے انسان کو راستہ دکھا دیا یا شکر گزاری یا ناشکری کا راستہ۔ راستہ کو شاکر یا کافر کہنا مجازی طور پر ہے اس تردید (یا شکر یا کفر) کا تعلق ہدایت سے نہیں ‘ راستے تو دونوں دکھائے ‘ شکر کی حالت بھی بتائی اور ناشکری کی بھی (ایسا نہیں کہ کسی کو ایک اور کسی کو دوسری دکھائی ہو) بلکہ تردید کا تعلق راستہ سے ہے ‘ راستہ یا شکر کا ہے یا ناشکری کا۔ بعض لوگوں نے تردید کا تعلق ہدایت سے سمجھ کر شبہ کیا تھا کہ حق کے راستہ کو حق دکھانا اور باطل کے راستہ کو باطل بتانا باہم لازم و ملزوم ہے۔ اس صورت میں تردید کا تصور ہی نہیں ہوسکتا۔ تردید کا مفہوم تو یہ ہوگا کہ ہم نے شکر اور ناشکری دونوں میں سے ایک راستہ بتادیا دوسرا نہیں بتایا اور انسان اس پر چل نکلا یا باطل کا راستہ دکھا دیا اور انسان اس پر چل دیا۔ اس توضیح پر لازم آئے گا کہ بعض انسان کی تقدیری تخلیق باطل راستہ چلنے پر ہوئی ہے۔ ہم نے جو السبیل سے شاکرًا اور کفورًا کو حال قرار دیا ہے اس پر مذکورہ بالا سوال وارد نہیں ہوتا (کیونکہ اللہ نے انسان کو راستہ تو دونوں دکھائے لیکن راستہ کی دو قسمیں ہیں یا شکر کا یا ناشکری کا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کلام شرطیہ ہے اِمَّا مرکب ہے اِنْ (شرطیہ) اور مَا (زائد) سے۔ اس وقت مطلب یہ ہوگا کہ انسان شاکر ہو یا کافر بہرحال ہم نے اس کو راستہ دکھا دیا اور کوئی عذر اس کے لیے باقی نہیں رکھا۔ کافر (اسم فاعل ‘ ناشکرا) کی جگہ کفور (مبالغہ ‘ بڑا ناشکرا) استعمال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہر شکر گزار (کامل شکر گزار نہیں ہوتا) کسی نہ کسی قسم کی ناشکری اس میں ضرور پائی جاتی ہے تو اب اسکے مقابل بڑا ناشکرا ہوسکتا ہے (کچھ ناشکرا تو وہ خود بھی ہے) یا صرف فواصل آیات کی رعایت سے کفورًا فرمایا۔ جملہ انا ھدینٰہ السبیل مستانفہ ہے۔ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے جب انسان کو پیدا کردیا اور اسکو سمیع ‘ بصیر بنا دیا تو پھر انسان نے کیا کیا ‘ اور خدا نے اسکے ساتھ کیا کیا ‘ اس موہومی سوال کو دور کرنے کیلئے انا ھدینٰہ فرمایا۔
Top