Tadabbur-e-Quran - Al-Insaan : 3
اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا
اِنَّا : بیشک ہم هَدَيْنٰهُ : ہم نے اسے دکھائی السَّبِيْلَ : راہ اِمَّا : خواہ شَاكِرًا : شکر کرنے والا وَّاِمَّا : اور خواہ كَفُوْرًا : ناشکرا
ہم نے اس کو راہ سمجھا دی۔ چاہے وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔
سمع و بصر کا ثمرہ: یہ انسان کو سمیع و بصیر بنانے کا ثمرہ بیان ہوا ہے کہ پھر ہم نے اس کو راہ سجھا دی۔ ’راہ سجھانے‘ سے مراد یہ ہے کہ اس کو نیکی اور بدی کی راہ سجھا دی، جیسا کہ دوسرے مقام میں فرمایا ہے: ’وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ‘ (البلد ۹: ۱۰) (اور ہم نے اس کو دونوں راہیں سجھا دیں) سورۂ شمس میں فرمایا ہے: ’فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا‘ (الشمس ۹۱: ۸) (پس اس کو اس کی بدی اور پرہیزگاری الہام کر دی) ان دونوں راہوں کے سجھا دیے جانے کے سبب سے انسان خود اپنے اوپر خیر اور شر کا گواہ بن گیا اور اس کے پاس بدی کی راہ اختیار کرنے کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہ گیا۔ اس حقیقت کی طرف سابق سورہ میں یوں اشارہ فرمایا ہے: ’بَلِ الْإِنۡسَانُ عَلَی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ ۵ وَلَوْ أَلْقٰی مَعَاذِیْرَہُ‘ (القیٰمۃ ۷۵: ۱۴-۱۵) (بلکہ انسان اپنے اوپر خود گواہ ہے اگرچہ وہ کتنے ہی عذرات تراشے)۔ اختیار کی نعمت: ’اِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُوْرًا‘۔ یہ انسان کے اختیار و ارادہ کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو نیکی و بدی کا امتیاز دے کر اس کو اختیار بخشا ہے کہ وہ چاہے تو نیکی کی راہ اختیار کرے، چاہے تو بدی کی راہ چلے۔ اگر نیکی کی راہ اختیار کرے گا تو وہ اپنے رب کا شکرگزار بندہ بنے گا اور اس کا انعام پائے گا اور اگر بدی کی راہ اپنائے گا تو وہ ناشکرا بنے گا اور اس کی سزا بھگتے گا۔
Top