Tafseer-e-Mazhari - Yunus : 21
وَّ اُخْرٰى لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَیْهَا قَدْ اَحَاطَ اللّٰهُ بِهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرًا
وَّاُخْرٰى : اور ایک اور (فتح) لَمْ تَقْدِرُوْا : تم نے قابو نہیں پایا عَلَيْهَا : اس پر قَدْ اَحَاطَ اللّٰهُ : گھیر رکھا ہے اللہ نے بِهَا ۭ : اس کو وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے پر قَدِيْرًا : قدرت رکھنے والا
اور اَور (غنیمتیں دیں) جن پر تم قدرت نہیں رکھتے تھے (اور) وہ خدا ہی کی قدرت میں تھیں۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے
واخری لم تقدروا علیھا قد احاط اللہ بھا وکان اللہ علی کل شیءٍ قدیرًا اور ایک فتح اور بھی ہے جو ابھی تمہارے قابو میں نہیں آئی ‘ اللہ تعالیٰ اس کو احاطے میں لئے ہوئے ہے۔ اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وَّاُخْرٰی اس کا عطف مغانم کثیرۃً پر ہے ‘ یعنی اللہ نے تم سے دوسرے اموال غنیمت کا بھی وعدہ کر رکھا ہے ‘ یا اس کا عطف ھذہٖ پر ہے ‘ یعنی اللہ تم کو اس کے بعد دوسری غنیمتیں بھی جلد عنایت فرمائے گا ‘ یا یہ فعل محذوف کا معمول ہے ‘ یعنی اللہ نے تمہارے لئے دوسری غنیمتیں بھی مقدر کردی ہیں۔ لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَیھَا جو ابھی تمہارے قبضہ میں نہیں آئیں ‘ اس سے مراد ہیں ملک فارس و روم کی فتوحات اور اموال غنیمت۔ اسلام سے پہلے عرب ‘ اہل فارس و روم سے لڑ نہیں سکتے تھے ‘ اسلام کی وجہ سے ان میں یہ طاقت پیدا ہوگئی۔ حضرت ابن عباس ‘ حسن اور مقاتل نے یہی تشریح کی ہے۔ قتادہ کے نزدیک اس سے فتح مکہ مراد ہے۔ عکرمہ نے کہا : فتح حنین مراد ہے۔ مجاہد نے کہا : آئندہ حاصل ہونے والی ہر فتح مراد ہے۔ قَدْ اَحَاط اللّٰہُ بِھَا یعنی ہو اللہ کے قبضہ میں ہیں ‘ یا اللہ تم کو کامیاب کرے گا۔ یا اَحَاطَ سے مراد ہیں علمی احاطہ ‘ یعنی اللہ کا علم ان کا محیط ہے ‘ اللہ ان کو تمہارے لئے فتح کرانا چاہتا ہے۔ وَکَان اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرًا یعنی اگرچہ تم ان پر قدرت نہیں رکھتے ‘ مگر اللہ ہر چیز پر قابو رکھتا ہے۔
Top