Tafseer-e-Mazhari - Al-Fath : 20
وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً تَاْخُذُوْنَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هٰذِهٖ وَ كَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْكُمْ١ۚ وَ لِتَكُوْنَ اٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَ یَهْدِیَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
وَعَدَكُمُ : وعدہ کیا تم سے اللّٰهُ : اللہ نے مَغَانِمَ كَثِيْرَةً : غنیمتیں کثرت سے تَاْخُذُوْنَهَا : تم لوگے انہیں فَعَجَّلَ : تو جلددیدی اس نے تمہیں لَكُمْ : تمہیں هٰذِهٖ : یہ وَكَفَّ : اور روک دئیے اَيْدِيَ النَّاسِ : ہاتھ لوگوں کے عَنْكُمْ ۚ : تم سے وَلِتَكُوْنَ اٰيَةً : اور تاکہ ہو ایک نشانی لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کیلئے وَيَهْدِيَكُمْ : اور وہ ہدایت دے تمہیں صِرَاطًا : ایک راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
خدا نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا کہ تم ان کو حاصل کرو گے سو اس نے غنیمت کی تمہارے لئے جلدی فرمائی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے۔ غرض یہ تھی کہ یہ مومنوں کے لئے (خدا کی) قدرت کا نمونہ ہو اور وہ تم کو سیدھے رستے پر چلائے
وعدکم اللہ مغانم کثیرۃ تاخذونھا فعجل لکم ھذہ وکف ایدی الناس عنکم ولتکون ایۃ للمؤمنین ویھدیکم صراطًا مستقیمًا اللہ نے تم سے اور بھی بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کر رکھا ہے جن کو تم لو گے ‘ سو سردست تم کو یہ دے دی ہے اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دئیے ‘ اور تاکہ یہ واقعہ اہل ایمان کیلئے ایک نمونہ بن جائے اور تاکہ تم کو ایک سیدھی سڑک پر ڈال دے۔ مَغَانِمَ کَثِیْرۃً یعنی وہ فتوحات جو قیامت تک مسلمانوں کو حاصل ہوتی رہیں گی۔ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان مکہ سے واپس آگئے اور (بظاہر) فتح حاصل نہیں ہوئی (اس سے کچھ دل شکستگی پیدا ہوگئی ‘ اس کو دور کرنے اور) مؤمنوں کو تسلی دینے کیلئے مغانم کثیرہ حاصل ہونے کی صراحت فرما دی۔ ھٰذِہٖ اس سے فتح خیبر مراد ہے۔ وَکَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْکُمْ بغوی نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب خیبر کے محاصرہ میں مشغول تھے ‘ ان ہی ایام میں قبائل بنی اسد اور غطفان نے مدینے پر حملہ کر کے مسلمانوں کے اہل و عیال کو لوٹنے کا ارادہ کیا تھا۔ لیکن اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ مسلمانوں کے اہل و عیال پر درازدستی نہ کرسکے۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ بنی غطفان ‘ رسول اللہ ﷺ کے خلاف یہودیوں کے مددگار تھے ‘ جب انہوں نے سنا کہ رسول اللہ ﷺ خیبر کے قریب فروکش ہیں تو یہودیوں کی مدد کرنے کیلئے نکل کھڑے ہوئے اور روانہ ہوگئے ‘ لیکن اثناء راہ میں انہوں نے (اپنی بستی کے اندر) اپنے اہل و عیال میں کچھ آہٹ سی محسوس کی تو خیال کیا کہ مسلمان وہاں جا پہنچے ‘ فوراً پچھلے قدم لوٹ پڑے اور بال بچوں کی حفاظت میں لگے رہے اور رسول اللہ ﷺ کیلئے خیبر تک پہنچنے کا راستہ خالی کردیا۔ ابن قانع ‘ بغوی اور ابو نعیم نے بروایت سعید بن شتیم بیان کیا کہ سعید کے باپ عیینہ بن حصن نے لشکر میں ‘ جو غطفان کے سواروں کے ساتھ تھے ‘ ایک آواز سنی : لوگو ! اپنے گھر والوں کی خبر لو ‘ ان پر حملہ کردیا گیا ہے۔ یہ آواز سنتے ہی لوگ لوٹ پڑے ‘ کسی نے کسی کی طرف نظر لوٹا کر بھی نہیں دیکھا۔ ہمارا خیال ہے کہ وہ آواز آسمان سے آئی تھی۔ بعض اہل تفسیر نے کَفَّ اَیْدِیَھُمْ کا یہ مطلب بیان کیا کہ صلح کی وجہ سے اہل مکہ کے ہاتھوں کو روک دیا۔ وَلِتَکُوْنَا اللہ نے ایسا اسلئے کیا کہ تم صحیح سلامت رہو ‘ یا تم کو مال غنیمت حاصل ہوجائے اور یہ درازدستی کی بندش ‘ یا مال غنیمت مسلمانوں کیلئے رسول اللہ ﷺ کے وعدہ کی سچائی کی ایک نشانی ہوجائے۔ وَیَھدِیَکُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا اور اللہ دکھا دے تم کو سیدھا راستہ۔ صراط مستقیم سے مراد ہے اللہ کے فضل پر اعتماد اور توکل ‘ یا یہ مطلب ہے کہ اللہ سیدھے راستہ پر یعنی اسلام پر تم کو جمائے رکھے اور بصیرت میں اضافہ کر دے۔ غزوۂ خیبر کے واقعہ کی تفصیل امام احمد ‘ ابن خزیمہ اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں سباع بن عرفطہ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اور مسلمانوں نے (خیبر کو روانہ ہونے کی) تیاری کرلی تو مدینے کے یہودیوں کو یہ تیاری بڑی شاق گذری اور مدینہ کے جس یہودی کا جس مسلمان پر کچھ حق (قرض) تھا ‘ وہ یہودی اس سے مسلمان سے چمٹ گیا (کہ میرا قرض دے کر جانا) ۔ امام احمد اور طبرانی نے حضرت ابو جدر کا بیان نقل کیا ہے ‘ ابو جدر نے فرمایا کہ ابو شحم یہودی کے مجھ پر پانچ درہم تھے ‘ وہ مجھ سے چمٹ گیا۔ میں نے کہا : مجھے مہلت دے دے ‘ امید ہے کہ واپس آکر میں تیرا قرض ادا کر دوں گا ‘ کیونکہ اللہ نے اپنے نبی ﷺ سے خیبر کے مال غنیمت کا وعدہ فرما لیا ہے۔ کہنے لگا : کیا تیرا یہ گمان ہے کہ خیبر کی لڑائی بھی ایسی ہی ہوگی جیسی تم کو دیہاتیوں ‘ بدویوں کی طرف سے پیش آتی ہے (اور تم اس کے عادی ہو) توریت کی قسم ! خیبر میں دس ہزار جنگجو بہادر رہتے ہیں۔ غرض دونوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنا معاملہ پیش کیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اس کا حق ادا کر دو ۔ چناچہ میں نے ایک کپڑا اپنا تین درہم کو فروخت کردیا ‘ الحدیث۔ جب رسول اللہ ﷺ خیبر کے قریب (مقام) صہباء میں پہنچے تو ہم (سب) سے کھانے کی چیزیں (جتنی جس کسی نے پاس تھیں) طلب فرمائیں ‘ لیکن حضور ﷺ کی خدمت میں صرف ستو پیش کئے گئے (کسی کے پاس اور کچھ تھا ہی نہیں) آپ نے ستوؤں کو پانی سے تر کیا ‘ خود بھی کھائے اور ہم نے بھی حضور ﷺ کے ساتھ ستو کھائے۔ پھر آپ نے نماز پڑھی (جدر) وضو نہیں کیا ‘ رواہ البخاری والبیہقی۔ محمد بن عمرو کا بیان ہے : پھر حضور ﷺ یہاں سے چل کر اس پڑاؤ پر پہنچے جہاں خیبر کا بازار تھا۔ یہ جگہ (فتح کے بعد) حضرت زید بن ثابت کے حصہ میں آئی تھی۔ پچھلی رات کو اس جگہ پہنچ کر فروکش ہوئے اور (پچھلی) شب کے کچھ حصہ میں یہاں ٹھہرے رہے۔ یہودیوں کا پہلے یہ خیال نہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ ان سے جنگ کریں گے کیونکہ یہودیوں میں قوت تھی ‘ اسلحہ بھی تھے اور تعداد بھی (بہت) تھی۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ روانہ ہوگئے ہیں تو روزانہ دس ہزار جنگجو بہادر (خیبر سے) نکل کر قطار در قطار ہو کر (باہر) آتے تھے اور جب مسلمانوں کو نہ پاتے تو واپس ہو کر کہتے تھے : محمد ﷺ کا خیال بدل گیا ‘ وہ کہاں آئیں گے ‘ ان کا آنا بہت دور کی بات ہے۔ روزانہ ان کا یہی معمول تھا۔ جس رات کو رسول اللہ ﷺ ان کے میدان میں اترے ‘ اس رات کو انہوں نے کوئی حرکت ہی نہیں کی (سب غافل ‘ بےغم پڑے سوتے رہے) مرغ نے بھی بانگ نہیں دی ‘ یہاں تک کہ صبح ہوگئی ‘ تو ان کے دل خوف سے دھڑکنے لگے اور قلعوں کے دروازے کھول کر وہ باہر آگئے۔ صحیحین کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خیبر کو روانہ ہو کر رات کو پہنچے اور آپ کا دستور تھا کہ اگر کسی قوم پر (حملہ کرنے کیلئے) رات کو پہنچتے تھے تو دھوکہ سے اچانک حملہ نہیں کرتے تھے ‘ جب صبح ہوجاتی اور بستی سے اذان کی آواز سن لیتے تو حملہ نہیں کرتے تھے اور اذان کی آواز نہ آتی تو حملہ کرتے تھے۔ ہم نے فجر کی نماز تڑکے سے پڑھ لی۔ اذان کی آواز سنائی نہ دی تو رسول اللہ ﷺ سوار ہوگئے ‘ مسلمان بھی سوار ہوگئے۔ بستی والے اپنے ٹوکرے اور کسیاں لے کر کھیتوں پر جانے کیلئے باہر نکلے ‘ جب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو پشت پھیر کر بھاگ پڑے اور بولے : محمد ﷺ آگئے اور پورا لشکر بھی۔ رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر فرمایا : اللہ اکبر ! خیبر تباہ ہوگیا۔ ہم جب (کسی قوم کے) میدان میں اترتے ہیں (اور ان کو تباہی سے ڈراتے ہیں ‘ لیکن وہ نہیں مانتے) تو جن لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے ‘ ان کی صبح بری ہوتی ہے (یعنی وہ غارت کر دئیے جاتے ہیں) رسول اللہ ﷺ نے آغاز جہاد نطاۃ کے باشندوں سے کیا۔ مسلمانوں کی صف بندی کی اور ان کو نصیحت کردی کہ میری اجازت سے پہلے لڑائی شروع نہ کرنا (لیکن حضور ﷺ سے اجازت لئے بغیر) بنی اشجع کے ایک آدمی نے ایک یہودی پر حملہ کردیا۔ اس یہودی نے حملہ کیا اور مسلمان کو قتل کردیا۔ لوگوں نے کہا : فلاں شخص شہید ہوگیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : جنگ کی میں نے ممانعت کردی تھی ‘ اس کے بعد اس شخص نے یہودی پر حملہ کردیا۔ مسلمانوں نے کہا : جی ہاں ! حضور ﷺ نے ایک منادی کو حکم دیا کہ وہ ندا کر دے کہ کسی نافرمان کیلئے جنت حلال نہیں۔ طبرانی نے حضرت جابر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ اس روز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : دشمن سے جنگ کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت کی دعا کرو ‘ کیونکہ تم کو معلوم نہیں کہ (جنگ میں) تم کو کیا صورت پیش آئے گی۔ ہاں ! جب مڈبھیڑ ہو ہی جائے گی تو دعا کرو : اے اللہ ! ہمارے اور ان کے مالک ! ہماری اور ان کی پیشانیاں تیرے قبضہ میں ہیں ‘ تو ہی ان کو قتل کرے گا۔ پھر زمین سے چمٹ کر بیٹھ جاؤ اور جب وہ تم پر حملہ کردیں تو اٹھ کھڑے ہو اور اللہ اکبر کہو ‘ الحدیث۔ ابن اسحاق اور محمد بن عمرو بن سعید کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جھنڈے تقسیم کر دئیے (ہر دستہ کا ایک جھنڈا مقرر کردیا) اور لوگوں کو لڑنے کی اجازت دے دی اور جمے رہنے کی ترغیب دی۔ سب سے اول جس قلعہ کا محاصرہ کیا ‘ وہ ناعم علاقۂ نطاۃ کا قلعہ تھا ‘ یہاں سخت جنگ ہوئی ‘ اہل نطاۃ نے شدید ترین جنگ کی۔ شام کو رسول اللہ ﷺ نجیع کو لوٹ جائے۔ اسی طرح صبح کو رسول اللہ ﷺ جھنڈے لے کر نکلتے تھے (اور شام کو واپس آجاتے تھے) آخر اللہ نے وہ قلعہ فتح کرا دیا۔ بیہقی ‘ ابو نعیم اور محمد بن عمر کی روایت ہے کہ جب مسلمان خیبر میں پہنچے تو ان ایام میں کھجوریں کچی تھیں ‘ مسلمانوں کو ان کے کھانے سے بخار آگیا۔ لوگوں نے حضور ﷺ سے اس کی شکایت کی تو فرمایا : پانی مشکیزوں میں بھر لو اور صبح کو دونوں اذانوں کے درمیان بسم اللہ کر کے پانی (اپنے اوپر) بہاؤ۔ مسلمانوں نے حکم کی تعمیل کی ‘ فوراً (ایسے) چست ہوگئے جیسے ایک بندش تھی اور وہ کھل گئی (گویا اونٹ کا زانو بند کھل گیا اور وہ چستی کے ساتھ کھڑا ہوگیا) ۔ ناعم کی فتح کے بعد مسلمانوں نے صعب بن معاذ کے قلعہ کا محاصر کیا۔ محمد بن عمر نے ابو الیسر کعب بن عمر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ یہ قلعہ بڑا مضبوط تھا ‘ مسلمانوں نے تین روز تک اس کا محاصرہ کیا۔ ابن اسحاق نے قبیلۂ اسلم کے ایک آدمی کے حوالہ سے اور محمد بن عمر نے معتب اسلمی کے بیان سے نقل کیا ہے ‘ اسلمی شخص نے کہا : ہمارے قبیلۂ اسلم والوں کو سخت بھوک نے ستایا تھا ‘ یہاں تک کہ ہم خیبر میں پہنچے اور دس روز تک حصن نطاۃ (کے محاصرہ) پر جمے رہے ‘ لیکن کوئی ایسا مقام جہاں کھانے کی کوئی چیز ہوتی ‘ فتح نہیں ہوا۔ لوگوں نے اسماء بن حارشہ کو حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا ‘ اسماء نے جا کر عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! قبیلہ والوں نے آپ کو سلام کہا ہے اور عرض کیا ہے کہ ہم سخت بھوک کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے قبضہ میں کوئی ایسی چیز نہیں کہ میں ان کو کھانے کیلئے دے سکوں۔ پھر فرمایا : اے اللہ ! سب سے بڑا قلعہ جس میں سب سے زیادہ چربی ہو ‘ فتح کرا دے۔ یہ دعا کرنے کے بعد جھنڈا حباب بن منذر کو عطا فرمایا اور لوگوں کو حباب کے جھنڈے کے نیچے جمع ہونے کی دعوت دی۔ راوی کا بیان ہے کہ ہم (حضور ﷺ کی خدمت سے) لوٹے بھی نہ تھے کہ اللہ نے صعب بن معاذ کے قلعہ کی فتح عنایت کردی۔ خیبر میں اس سے بڑھ کر (غذائی رسد یعنی) غلہ اور چربی والا کوئی قلعہ نہیں تھا۔ حباب کا مقابلہ کرنے کیلئے یوشع یہودی باہر نکلا تھا ‘ حباب نے اس کو قتل کردیا ‘ پھر زیال نکل کر آیا ‘ اس کو عمارہ بن عقبہ غفاری نے جا لیا ‘ اس پر لوگوں نے کہا : اس کا جہاد بیکار ہوگیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اس پر کوئی گناہ عائد نہیں ہوتا (کہ اس نے حباب کے حریف کو حباب سے پہلے ہی قتل کردیا) بلکہ اس کو اجر ملے گا اور اس کا فعل قابل ستائش ہے۔ محمد بن عمر نے حضرت جابر کی روایت سے بیان کیا کہ صعب کے قلعہ کے اندر مسلمانوں کو اتنی کثرت سے کھانے کی چیزیں ملیں جن کا ان کو گمان بھی نہیں تھا۔ جو ‘ چھوارے ‘ گھی ‘ شہد ‘ زیتون کا تیل اور چربی (ہر چیز بافراط ہاتھ آئی) پھر رسول اللہ ﷺ کے منادی نے ندا دی : کھاؤ اور لے لو ‘ لیکن اپنے ساتھ لادنا مت۔ یعنی یہاں سے اٹھا کر اپنی بستیوں میں نہ لے جانا۔ بیہقی نے محمد بن عمر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ یہودی حصن ناعم اور حصن صعب سے منتقل ہو کر قلۂ زبیر کو چلے گئے (پہاڑ کی وہ چوٹی جو حضرت زبیر کے حصہ میں آئی تھی ‘ قلۂ زبیر سے وہی چوٹی مراد ہے) اس چوٹی پر ایک قلعہ تھا ‘ مسلمانوں نے اس قلعہ کا محاصرہ کرلیا اور تین روز محاصرہ قائم رکھا۔ ایک یہودی جس کا نام غزال تھا (پوشیدہ طور پر) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : ابو القاسم ! میں اپ کو ایک تدبیر بتاتا ہوں جس سے اہل حصن کے جھگڑے سے آپ کو فراغت مل جائے گی ‘ بشرطیکہ مجھے مع اہل و عیال یہاں سے امن کے ساتھ شق کو چلے جانے کی اجازت دے دیں ‘ کیونکہ شق میں رہنے والے آپ کے رعب سے مرے جا رہے ہیں۔ حضور ﷺ نے اس کو مع اہل و عیال امن دینے کا وعدہ فرما لیا۔ یہودی نے کہا : اگر آپ ایک مہینہ تک یہاں پڑے رہیں گے تب بھی اہل حصن کو کچھ پروا نہ ہوگی ‘ کیونکہ زمین کے اندر ان کے پاس پانی جمع ہے ‘ رات کو نکل کر وہاں جا کر وہ اپنے لئے پانی لے آتے ہیں۔ اگر آپ پانی تک پہنچنے کا ان کا راستہ کاٹ دیں تو وہ (بیتاب ہو کر) باہر نکل پڑیں گے۔ (حسب مشورہ) رسول اللہ ﷺ نے جا کر ان کے پانی کا سلسلہ منقطع کردیا۔ پانی کا سلسلہ کٹ گیا تو وہ لوگ فوراً باہر نکل آئے اور سخت ترین مقابلہ کیا۔ اس روز کی لڑائی میں چند مسلمان شہید ہوگئے ‘ دس یہودی مارے گئے اور قلعہ فتح ہوگیا ‘ نطاۃ کا یہ آخری قلعہ تھا۔ نطاۃ سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ شق کی طرف متوجہ ہوئے ‘ شق میں قلعہ کے اوپر ایک چھاؤنی تھی جس کو سموان کہا جاتا تھا۔ سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے اسی کا رخ کیا ‘ چھاؤنی والوں نے سخت ترین مقابلہ کیا۔ ایک یہودی جس کو غزول کہا جاتا تھا ‘ مقابلہ کیلئے باہر آیا ‘ حباب بن منذر نے اس کو قتل کردیا۔ ایک اور یہودی نکل کر آیا ‘ اس کو ابو دجانہ نے قتل کردیا اور اس کی زرہ اور تلوار لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور ﷺ نے وہ زرہ اور تلوار ابو دجانہ کو ہی عنایت فرما دی۔ اس کے بعد یہودی میدان میں نکل کر مقابلہ کرنے سے رک گئے۔ مسلمانوں نے نعرۂ تکبیر بلند کیا اور چھاؤنی پر حملہ کردیا اور اندر گھس گئے۔ حضرت ابو دجانہ آگے آگے تھے۔ وہاں مسلمانوں کو بڑا مال و اسباب ‘ بکریاں ‘ بھیڑیں اور غلہ ملا۔ وہاں جو جنگجو لوگ تھے ‘ سب بھاگ کر بنزال (قلعہ کا نام) میں چلے گئے۔ نطاۃ میں جو لوگ باقی رہ گئے تھے ‘ وہ بھی بنزال میں آگئے اور انتہائی مضبوطی کے ساتھ قلعہ بند ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی ساتھیوں کو لے کر (بنزال کی طرف) حرکت کی اور سخت ترین جنگ کی۔ اہل شق نے مسلمانوں پر تیروں اور پتھروں کی بارش کردی۔ کچھ تیر رسول اللہ ﷺ کی طرف بھی آئے جو آپ کے کپڑوں میں الجھ کر رہ گئے۔ آپ نے ان کو جمع کرلیا ‘ پھر ایک مٹھی کنکریاں لے کر قلعہ پر پھینک ماریں جس سے قلعہ میں لرزہ پیدا ہوگیا اور دیواریں زمین پر آ لگیں۔ مسلمان اندر داخل ہوگئے اور قلعہ والوں کو گرفتار کرلیا۔ نطاۃ اور شق کے قلعے فتح ہوگئے تو جو لوگ باقی رہ گئے تھے ‘ وہ کثیبہ کی چھاؤنیوں کی طرف بھاگ گئے۔ کثیبہ کی چھاؤنیوں میں سب سے بڑی چھاؤنی قموص تھی ‘ یہ بڑی مضبوط اور محفوظ تھی۔ ابن ابی عقبہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کا محاصرہ بیس روز جاری رکھا۔ یہ سرزمین صحت کیلئے مضر تھی۔ شیخین نے حضرت سہل بن سعد کی روایت سے اور بخاری و ابونیم نے حضرت سلمہ بن اکوع کی روایت سے اور ابو نعیم نے حضرت عمر ‘ حضرت ابن عباس ‘ حضرت سعد بن ابی وقاص ‘ حضرت عمران بن حصین اور حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت سے اور مسلم و بیہقی نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اور امام احمد و ابویعلیٰ و بیہقی نے حضرت علی کی روایت سے اور ابونعیم و بیہقی نے حضرت بریدہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو (درد) شقیقہ (آدھے سر کا درد) اٹھا کرتا تھا ‘ جس کی وجہ سے ایک دو روز آپ باہر تشریف نہیں لاتے تھے۔ جب خیبر میں فروکش ہوئے تو (حسب عادت) درد شقیقہ شروع ہوگیا۔ آپ نے حضرت ابوبکر کو بلوا کر اپنا جھنڈا ان کے سپرد کیا۔ حضرت ابوبکر نے جھنڈا لے کر سخت ترین جنگ کی ‘ پھر دوبارہ چڑھائی کی اور پہلی جنگ سے زیادہ شدید حملہ کیا ‘ لیکن کامیابی کے بغیر واپس آگئے ‘ فتح نہ ہوسکی۔ حضور ﷺ کو اس کی اطلاع دی گئی تو فرمایا : کل میں ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح عنایت فرمائے گا۔ وہ میدان سے بھاگنے والا نہ ہوگا ‘ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرنے والاہو گا اور زبردستی فتح حاصل کرلے گا۔ حضرت بریدہ کا بیان ہے : اس فرمان نبوی کے بعد ہمارے دلوں کو یقین ہوگیا کہ کل کو فتح حاصل ہوجائے گی ‘ لیکن لوگوں کو رات بھر یہی سوچ رہی کہ کل جھنڈا کس کو دیا جائے گا۔ صبح ہوئی تو لوگ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ‘ ہر ایک کی خواہش تھی کہ حضور ﷺ اس کو جھنڈا عطا فرمائیں۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا : اس روز کے علاوہ مجھے کبھی خواہش نہ ہوئی کہ مجھے امیر بنایا جائے۔ صبح کو فجر کی نماز کے بعد رسول اللہ ﷺ نے جھنڈا طلب فرمایا اور سیدھے کھڑے ہو کر (حسب روایت زہری) لوگوں کو نصیحت فرمائی ‘ پھر فرمایا : علی کہاں ہیں ؟ لوگوں نے کہا : اس کی آنکھیں آگئی ہیں۔ لوگوں کو بلانے کیلئے بھیجا گیا۔ حضرت سلمہ کا بیان ہے : میں حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کرلے آیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تم کو کیا ہوگیا ؟ حضرت علی نے جواب دیا : میری آنکھیں دکھنے لگی ہیں ‘ اتنی کہ سامنے کی چیز بھی نہیں دیکھ سکتا۔ حاکم کی روایت میں حضرت علی کا بیان آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا سر اپنی گود میں لیا ‘ پھر اپنا لعاب دہن دست مبارک میں لے کر میری آنکھوں میں مل دیا۔ صحابہ کا بیان ہے کہ ملتے ہی آنکھیں ایسی ہوگئیں گویا کبھی یہ دکھی ہی نہ تھیں۔ اس کے بعد وقت وفات تک حضرت علی کی آنکھیں کبھی نہیں دکھیں۔ اس واقعہ کے بعد حضور ﷺ نے جھنڈا ان کو عنایت فرمایا۔ حضرت علی نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! میں ان یہودیوں سے اس وقت تک لڑتا رہوں گا جب تک وہ ہماری طرح (مسلمان) نہ ہوجائیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : آہستہ چال سے چل کر جاؤ۔ جب ان کے علاقہ میں پہنچ جاؤ تو ان کو اسلام کی دعوت دو ‘ اور ان کو بتاؤ کہ اللہ کا حق ان پر کیا ہے اور اللہ کے رسول ﷺ کا حق کیا ہے۔ اگر تمہارے ذریعہ سے اللہ ایک کو بھی ہدایت کر دے تو اللہ کی قسم ! سرخ اونٹوں سے بھی تمہارے لئے زیادہ بہتر (مفید) ہوگا۔ حضرت علی جھنڈا لے کر نکل کر چلے اور قلعہ کے نیچے پہنچ کر جھنڈا زمین میں گاڑ دیا۔ ایک یہودی نے قلعہ کے اوپر سر باہر نکال کر دیکھا اور پوچھا : تو کون ہے ؟ حضرت علی نے فرمایا : میں علی ہوں۔ یہودی یہ سنتے ہی بول اٹھا : قسم ہے اس کی جس نے موسیٰ پر توریت نازل کی ! تم غالب آگئے۔ آخر حضرت علی فتح کر کے ہی لوٹے۔ محمد بن عمرو نے حضرت جابر کی روایت سے بیان کیا کہ خیبر کے قلعہ سے جو سب سے پہلے باہر نکل کر آیا حضرت علی سے مقابلہ کرنے ‘ وہ مرحب کا بھائی حارث تھا۔ حضرت علی نے اس کو قتل کردیا۔ اس کے ساتھی قلعہ کے اندر لوٹ کر چلے گئے۔ پھر عامر قلعہ سے برآمد ہوا ‘ یہ بڑا دراز قامت ‘ جسیم آدمی تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : عامر باہر نکلا ہے۔ تم دیکھ رہے ہو یہ پانچ ہاتھ کا آدمی ہے اور دعوت مقابلہ دے رہا ہے۔ حضرت علی اس کے مقابلہ پر گئے اور اس کو قتل کردیا۔ اس کے بعد یاسر نکل کر آیا ‘ حضرت علی اس کے مقابلہ کیلئے بھی جانے لگے تو حضرت زبیر بن عوام نے کہا : میں آپ کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ مجھے اس سے تنہا نبٹ لینے دیجئے۔ حضرت علی نے حضرت زبیر کی بات مان لی۔ جب حضرت زبیر مقابلہ کیلئے برآمد ہوئے تو حضرت صفیہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرا بیٹا مرا جائے گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : نہیں ‘ بلہ تمہارا بیٹا انشاء اللہ اس کو قتل کر دے گا۔ چناچہ حضرت زبیر نے یاسر کو قتل کردیا۔ حضور ﷺ نے (حضرت زبیر سے) فرمایا : تجھ پر میرا چچا قربان ! ہر نبی کا حواری (مخلص قلبی دوست) ہوتا ہے ‘ میرا حواری زبیر ہے۔ حضرت سلمہ بن اکوع راوی ہیں کہ مرحب رجز (رزمیہ اشعار) پڑھتا ہوا باہر آیا ‘ حضرت علی نے اس کو بھی قتل کردیا۔ امام احمد نے حضرت علی کا قول نقل کیا ہے کہ جب میں نے مرحب کو قتل کردیا تو اس کا سر لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بیہقی اور محمد بن عمرو نے حضرت جابر بن عبد اللہ کے حوالے سے بیان کیا کہ حضرت محمد بن مسلمہ نے مرحب کو قتل کیا تھا ‘ لیکن صحیح روایت مسلم کی ہے کہ حضرت علی نے مرحب کو قتل کیا تھا۔ ابن اسحاق کی روایت ہے کہ حضرت ابو رافع نے بیان کیا : جب رسول اللہ ﷺ نے (جھنڈا دے کر) حضرت علی کو بھیجا تو میں بھی حضرت علی کے ساتھ تھا۔ آپ قلعہ کے قریب پہنچے تو اہل قلعہ باہر نکل آئے ‘ حضرت علی ان سے لڑنے لگے۔ ایک یہودی نے حضرت علی کی تلوار پر ضرب لگائی جس سے ڈھال آپ کے ہاتھ سے گرگئی۔ ایک کواڑ قلعہ کے پاس پڑا ہوا تھا ‘ آپ نے فوراً اس کو اٹھا لیا اور اس کو ڈھال بنا لیا اور برابر لڑتے رہے ‘ آخر اللہ نے فتح عنایت فرما دی۔ لڑائی سے فارغ ہو کر وہ کواڑ اپنے ہاتھ سے پھینک دیا۔ وہ منظر میرے سامنے ہے کہ سات آدمی اور تھے ‘ میں آٹھواں تھا ‘ ہم سب نے کوشش کر کے اس کواڑ کو پلٹنا چاہا ‘ لیکن پلٹ نہ سکے۔ بیہقی نے دو طریقوں سے حضرت محمد بن علی (محمد حنفیہ) کی روایت سے بیان کیا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ نے فرمایا کہ حضرت علی نے خیبر کے دن وہ دروازہ اٹھا کر (قلعہ سے) لگا دیا کہ مسلمان اس پر چڑھ کر قلعہ پر پہنچ گئے اور قلعہ کھول دیا۔ ہم نے بطور آزمائش اس کو اٹھانا چاہا ‘ مگر چالیس آدمی اس کو اٹھا نہ سکے۔ اس روایت کے سب راوی ثقہ ہیں ‘ صرف لیث بن سلیم غیرمعتبر ہے۔ حضرت جابر کی ایک روایت میں آیا ہے کہ ستر آدمیوں نے جمع ہو کر کوشش کی کہ اس دروازے کو اس کی جگہ پر لوٹا دیں۔ صالحی نے کہا کہ حاکم نے بھی یہ روایت بیان کی ہے۔ قموص میں ابو الحقیق کے قلعہ کے اندر سے کچھ عورتیں گرفتار ہو کر آئیں ‘ جن میں سے حیی بن اخطب کی بیٹی حضرت صفیہ بھی تھیں ‘ حضرت بلال ان کو اور ان کے ساتھ ایک اور عورت کو اس راستہ سے لے کر آئے جہاں یہودیوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ حضرت صفیہ کے ساتھ والی عورت ان کو دیکھ کر چیخ پڑی اور اس نے منہ پیٹ لیا اور اپنے سر پر خاک ڈالنے لگی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو دیکھ کر فرمایا : اس شیطانہ کو الگ لے جاؤ۔ پھر حضرت صفیہ کو اپنے پیچھے آنے کا حکم دیا اور اپنی چادر ان پر ڈال دی (چادر ڈالنے سے مسلمان سمجھ گئے کہ حضور ﷺ نے حضرت صفیہ کو اپنے لئے منتخب فرما لیا) حضرت صفیہ کے ساتھ والی یہودن کی بیقراری دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال سے فرمایا : کیا تمہارے (دل کے) اندر سے رحم بالکل نکال لیا گیا (یعنی کیا تمہارے دل میں رحم بالکل نہیں رہا) کہ تم ان دونوں عورتوں کو ادھر سے لے کر آئے جہاں ان کے مرد مقتول پڑے ہیں۔ حضرت صفیہ کی شادی جب کنانہ بن ربیع بن ابی الحقیق سے ہوئی ‘ اسی زمانہ میں آپ نے خواب میں دیکھا تھا کہ چاند میری گودی میں آ گرا ہے۔ یہ خواب آپ نے اپنے شوہر کو بیان کیا : ” تو شاہ حجاز محمد ﷺ کی خواہش مند ہے ؟ “ یہ کہہ کر ایک طمانچہ اس نے آپ کے منہ پر ایسا مارا کہ آنکھ پر نیل پڑگیا۔ جب حضرت صفیہ حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچیں تو طمانچہ کا نشان آپ کی آنکھ پر تھا۔ حضور ﷺ نے سبب دریافت کیا تو آپ نے واقعہ بیان کردیا۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ دحیہ (کلبی) نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ان قیدیوں میں سے ایک باندی مجھے عنایت فرما دیجئے۔ حضور ﷺ نے حکم دیا : جاؤ ‘ کوئی لونڈی لے لو۔ حضرت دحیہ نے حضرت صفیہ بن حیی کا انتخاب کرلیا۔ یہ دیکھ کر ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! آپ نے حیی کی بیٹی صفیہ جو (سارے) بنی قریظہ اور بنی نضیر کی سردار ہے ‘ دحیہ کو عطا فرما دی ‘ وہ تو صرف آپ کیلئے زیبا تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے حکم دیا : دحیہ کو مع صفیہ کے بلاؤ۔ دحیہ مع صفیہ کے آگئے۔ حضور ﷺ نے صفیہ کو دیکھ کر حضرت دحیہ سے فرمایا : اس کی بجائے قدیوں میں سے کوئی اور لونڈی لے لو۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے حضرت صفیہ کو آزاد کر کے خود ان سے نکاح کرلیا۔ واپسی میں راستہ میں ہی تھے کہ ام سلمہ نے حضرت صفیہ کو سروسامان سے تیار کر کے رات ہی کو خدمت گرامی میں بھیج دیا۔ صبح ہوئی تو فرمایا : جس کسی کے پاس کچھ (کھانے کی) چیز ہو ‘ وہ لے آئے۔ یہ حکم دے کر چمڑے کا دسترخوان آپ نے بچھوا دیا۔ چناچہ کوئی چھوارے لایا ‘ کوئی گھی لایا ‘ کوئی ستو لایا اور سب کو ملا کر لوگوں نے حلوا بنا لیا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے طعام ولیمہ تھا۔ ثابت نے ابو حمزہ سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ نے حضرت صفیہ کو مہر کیا دیا ؟ ابوحمزہ نے کہا : ان کو آزاد کردیا اور نکاح کرلیا (آزادی ہی مہر قرار پائی) ۔ صحیحین میں آیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن اوفیٰ نے فرمایا : خیبر کے (قیام کے) زمانہ میں ہم سخت بھوک میں مبتلا ہوگئے (کھانے کی بڑی قلت تھی) خیبر کی جنگ کے دن کچھ پالتو گدھے ہمارے ہاتھ لگ گئے ‘ ہم نے انہی کو ذبح کر کے ہانڈیاں چڑھا دیں۔ ہانڈیوں میں ابال آیا ہی تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے منادی نے ندا دی : ” ہانڈی الٹ دو ‘ گدھوں کا گوشت بالکل نہ کھاؤ۔ “ حضرت ابن عباس راوی ہیں کہ تقسیم سے پہلے مال غنیمت کو فروخت کرنے کی اور وضع حمل سے پہلے حاملہ (لونڈی) سے صحبت کرنے کی رسول اللہ ﷺ نے ممانعت فرما دی اور فرمایا : کیا دوسرے کی کھیتی کو تم اپنے پانی سے سیراب کرو گے ؟ اور پالتو گدھے کے گوشت اور ہر نوک دار دانت (یعنی کیلوں) والے جانور کے گوشت سے بھی منع فرما دیا ‘ رواہ الدارقطنی۔ محمد بن عمرو کا بیان ہے : بیس یا تیس گدھے ذبح کئے تھے۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ مال پر مال لیتے اور قلعہ پر قلعہ فتح کرتے جا رہے تھے ‘ یہاں تک کہ دو قلعے وطیح اور سلالم رہ گئے۔ یہ دونوں آخری قلعہ تھے جو فتح نہیں ہوئے تھے۔ یہودی باہر نہیں آتے تھے ‘ قلعہ بند ہوگئے تھے۔ آخر رسول اللہ ﷺ نے منجنیق نصب کرانے کا ارادہ کیا (تاکہ سنگ باری کر کے دیوار توڑ دی جائے) جب یہودیوں کو ہلاکت کا یقین ہوگیا ‘ 14 روز کا محاصرہ ہوگیا تھا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے صلح کی درخواست کی۔ کنانہ بن ابی الحقیق نے ایک یہودی کو جس کا نام شماخ تھا ‘ پیام صلح دے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان شرطوں پر مصالحت تسلیم کرلی کہ جتنے لوگ قلعہ بند ہیں ‘ ان کی اور ان کے اہل و عیال کی جانیں محفوظ رہیں گی۔ وہ خیبر کی سرزمین سے نکل جائیں ‘ سارا مال و متاع ‘ سونا ‘ چاندی ‘ کپڑے ‘ زمین ‘ گھوڑے اور اسلحہ وغیرہ سب چھوڑ جائیں اور جو کپڑے پہنے ہوئے ہوں ‘ بس وہی پہنے ہوئے جاسکتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم کچھ چھپا کر رکھو گے تو اللہ کی اور میری ذمہ داری ختم ہوجائے گی۔ ان شرائط پر یہودیوں نے صلح کرلی اور رسول اللہ ﷺ نے ترتیب وار ہر چیز پر قبضہ کرلیا۔ ان دونوں قلعوں میں سو زرہیں ‘ چار سو تلواریں اور پانچ سو عربی کمانیں مع تیر دانوں کے دستیاب ہوئیں اور کثیبہ میں پانچ سو کمانیں ‘ تیر اندازوں سمیت پہلے مل چکی تھیں۔ ابن سعد اور بیہقی نے حضرت ابن عمر کی روایت سے نیز ابن سعد نے حضرت ابن عباس کی روایت سے مصالحت کی یہی تفصیل بیان کی ہے جو ہم نے ذکر کردی کہ یہودیوں نے وعدہ کیا تھا کہ کوئی چیز چھپائیں گے نہیں ‘ اگر چھپائیں گے تو انکی حفاظت کی ذمہ داری ختم۔ حضرت ابن عباس راوی ہیں کہ حضرت صفیہ کے سابق شوہر کنانہ بن ابی الحقیق کو اور اس کے بھائی ربیع کو اور اس کے چچا کے بیٹے کو لایا گیا اور حضور ﷺ نے ان سے فرمایا : حیی کا چمڑے کا (سونے سے بھرا ہوا) تھیلا کیا ہوا جو بنی نضیر لے کر آئے تھے ؟ دونوں بھائیوں نے کہا : (امدادی) مصارف اور لڑائیوں نے اس کو ختم کردیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : زمانہ تو تھوڑا ہی گذرا ہے اور مال بہت تھا (اتنی قلیل مدت میں سب سونا کیسے خرچ ہوگیا ؟ ) تم دونوں نے یقیناً اس کو چھپا رکھا ہے۔ اگر تم مجھ سے کچھ بھی چھپائے رکھو گے اور پھر مجھے اس کی اطلاع مل جائے گی تو تم دونوں کا قتل اور تمہارے بیوی بچوں کو باندی غلام بنانا میرے لئے جائز ہوجائے گا۔ کنانہ نے کہا : ہاں۔ بیہقی نے عروہ اور محمد ابن عمرو کی روایت سے بیان کیا ہے کہ اللہ نے اپنے نبی کو اس خزانہ کا مقام بتادیا اور حضور ﷺ نے کنانہ سے فرمایا : بحکم آسمانی تو جھوٹا ہے۔ پھر ایک انصاری کو طلب فرما کر حکم دیا : فلاں میدان میں جاؤ ‘ ایک درخت خرما دائیں طرف اور دوسرا بائیں طرف ملے گا (دونوں کے بیچ میں زمین کے اندر ایک خزانہ ملے گا) جو کچھ وہاں ملے ‘ میرے پاس لے آؤ۔ انصاری جا کر ایک برتن اور کچھ مال لے آئے جس کی قیمت دس ہزار دینار جانچی گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے دونوں کی گردنیں مارنے اور دونوں کے بیوی بچوں کو باندی غلام بنانے کا حکم دے دیا کیونکہ ان دونوں نے عہدشکنی کی تھی۔ بخاری نے حضرت ابن عمر کی روایت سے اور بیہقی نے حضرت ابن عمر اور موسیٰ بن عقبہ اور عروہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب خیبر فتح کرلیا تو یہودیوں نے کہا : محمد ! ﷺ ہم کو یہیں رہنے دیجئے۔ ہم یہیں رہیں گے اور اس زمین کی خدمت انجام دیں گے۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کے پاس (کاشتکاری سے واقف غلام نہ تھے اور خود) اتنی فراغت نہ تھی کہ زمین کی کھیتی باڑی) کا کام انجام دے سکتے ‘ اسلئے حضور ﷺ نے اس شرط پر ان کی درخواست منظور فرما لی کہ اناج اور کھجوروں کی پیداوار میں سے ان کو نصف دیا جائے گا اور باقی حصہ رسول اللہ ﷺ کا ہوگا۔ ایک روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم جب تک چاہیں گے تم کو (اس طور پر) برقرار رکھیں گے۔ دوسری روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے : جب تک اللہ تم کو برقرار رکھے گا ‘ ہم بھی برقرار رکھیں گے۔ ہر سال حضرت عبد اللہ بن رواحہ جا کر وہاں کی پیدوار نکلوا کر ایک جگہ جمع کر کے نصف نصف تقسیم کردیتے تھے۔ یہودیوں نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی شکایت رسول اللہ ﷺ تک پہنچائی اور حضرت عبد اللہ کو رشوت دینی چاہی۔ حضرت عبد اللہ نے فرمایا : اے دشمنان خدا ! کیا تم مجھے حرام کھلانا چاہتے ہو ؟ میں تمہارے پاس ایک ایسے شخص کی طرف سے آیا ہوں جو مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہے اور تم میری نظروں میں بندروں اور سوروں سے بھی زیادہ قابل نفرت ہو ‘ لیکن تم سے یہ نفرت اور ان سے یہ محبت مجھے تمہارے ساتھ ناانصافی کرنے پر آمادہ نہیں کرسکتی۔ یہودیوں نے کہا : اسی عدل پر تو آسمان و زمین قائم ہیں۔ غرض یہودی اپنی زمینوں پر بدستور قائم رہے ‘ لیکن جب حضرت عمر کا دور خلافت آیا تو یہودیوں نے مسلمانوں سے غداری کی اور حضرت عبد اللہ بن عمر کو مکان کے اوپر سے نیچے پھینک دیا ‘ پھر دونوں ہاتھوں (کے پہنچوں) کو موڑ دیا ‘ گویا اکھاڑ دیا۔ بعض روایات میں آیا ہے : رات کو جب حضرت عبد اللہ سو رہے تھے تو یہودیوں نے آپ پر جادو کیا۔ صبح کو اٹھے تو ایسا معلوم ہوا پہنچے انگوٹھوں کی طرف مڑ گئے ہیں ‘ گویا بندھے ہوئے ہیں۔ جب آپ کے ساتھی آئے تو انہوں نے آپ کے ہاتھوں کو ٹھیک کیا۔ یہ حالات دیکھ کر حضرت عمر نے برسر عام ایک تقریر کی اور فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے سلسلہ میں یہودیوں سے مالی پیداوار کا ایک معاملہ کیا تھا اور فرمایا تھا : جب تک اللہ تم کو برقرار رکھے گا ‘ ہم بھی برقرار رکھیں گے۔ عبد اللہ بن عمر اپنے مال کے سلسلہ میں وہاں گئے تھے ‘ ان پر رات کو حملہ کیا گیا اور ان کے ہاتھوں کو موڑ دیا گیا (یا اکھاڑ دیا گیا) وہاں سوائے ان یہودیوں کے اور کوئی ہمارا دشمن نہیں ہے (اس جرم میں) انہی لوگوں کی اہمیت ہماری نظر میں ہے ‘ اسلئے میں ان کو جلاوطن کرنا چاہتا ہوں۔ جس جس کا حصہ خیبر میں ہو ‘ وہ آجائے اور (ارض خیبر کو) تقسیم کرا لے۔ جب حضرت عمر نے یہودیوں کو جلاوطن کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا تو قبیلہ بنی الحقیق کا ایک سردار آیا اور اس نے کہا : آپ ہم کو جلاوطن نہ کیجئے ‘ ہم کو یہیں رہنے دیجئے جیسے ابو القاسم (رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر نے ہم کو رکھا تھا۔ حضرت عمر نے اس سے فرمایا : تو بھول گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے تجھ سے فرمایا تھا : تیرا اس وقت کیا حال ہوگا جب تیز رفتار اونٹنی شباشب تجھے لئے اڑ رہی ہوگی۔ کہنے لگا : یہ تو ابوالقاسم ﷺ کا ایک مذاق تھا۔ حضرت عمر نے فرمایا : تو جھوٹا ہے۔ غرض آپ نے یہودیوں کو خیبر سے نکال دیا۔ شیخین نے حضرت انس کی روایت سے اور ابن سعد و ابو نعیم نے حضرت ابن عباس کی روایت سے اور بعض دوسرے علماء نے حضرت جابر ‘ حضرت ابوسعید اور حضرت ابوہریرہ کی روایت سے ‘ نیز زہری نے بیان کیا کہ مرحب کی بھتیجی ‘ سلام بن مشکم کی بیوی زینب نے لوگوں سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو بکری کے کس عضو کا گوشت پسند ہے۔ لوگوں نے کا : دست کا۔ زینب نے پوری بکری کا گوشت زہر آلود کر کے ‘ بھون کر حضرت صفیہ کے پاس بطور ہدیہ بھیجا اور دست میں زیادہ زہر ملا دیا۔ رسول اللہ ﷺ جب حضرت صفیہ کے پاس تشریف لائے ‘ حضرت بشر بن براء بن معرور اس وقت حضور ﷺ کے ساتھ تھے۔ حضرت صفیہ نے بھونی ہوئی (پوری) بکری خدمت میں پیش کی۔ حضور ﷺ نے بکری کا دست لے کر کچھ گوشت اس میں سے نوچا (اور منہ میں رکھ کر) گھمایا اور بشر نے ہڈی لے کر اس میں سے گوشت نوچ کر منہ میں لیا۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ بشر نے تو اس کو نگل لیا مگر رسول اللہ ﷺ نے تھوک دیا۔ زہری کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس میں سے ایک ٹکڑا لیا اور حضرت بشر نے بھی ایک لقمہ لیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : ہاتھ کھیچ لو ‘ یہ بکری مجھے اطلاع دے رہی ہے کہ وہ زہر آلود ہے۔ حضرت بشر نے کہا : قسم نے اس کی جس نے آپ کو عزت بخشی ہے ! میں نے بھی اپنے نوالہ میں یہ بات محسوس کی تھی ‘ لیکن آپ کے سامنے میں نے کھانے کو منہ سے پھینک دینا پسند نہیں کیا۔ جب آپ نے اپنے منہ کے اندر نوالہ کو ناگوار محسوس نہیں کیا تو میں آپ کی جان سے اپنی جان کو عزیز رکھتا ‘ میں ایسا نہیں کرسکتا تھا۔ مجھے یہی خیال تھا کہ نوالہ میں خرابی ہونے کے باوجود آپ نے توڑا ہو ‘ ایسا ہو نہیں سکتا۔ حضرت بشر اپنی جگہ سے اٹھنے بھی نہ پائے کہ طیلسان (چادر سبز یا زرد) کی طرح آپ کا رنگ ہوگیا اور وفات ہوگئی۔ رسول اللہ ﷺ نے ابوہند کو بلوا کر اپنے کندھے پر پچھنے (خون بھرے سینگھ) لگوائے۔ رسول اللہ ﷺ تو بچ گئے ‘ لیکن یہ دکھ وقت وفات تک رہا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : زہریلی بکری کا جو لقمہ خیبر کے دن میں نے کھایا تھا ‘ اس کا اثر میں برابر محسوس کرتا رہا ( اس سے ثابت ہوتا ہے کہ) رسول اللہ ﷺ شہید ہوئے۔ حضور ﷺ نے اس یہودن کو طلب فرمایا اور ارشاد فرمایا : کیا تو نے بکری (کے گوشت) کو زہرآلود کیا تھا ؟ یہودن نے کہا : جی ہاں۔ فرمایا : تو نے یہ حرکت کیوں کی ؟ کہنے لگی : میری قوم کی جو درگت آپ نے بنائی ‘ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ میں نے خیال کیا کہ اگر یہ شخص بادشاہ ہے تو میں اس سے نجات پا جاؤں گی اور اگر نبی ہے تو اس کو اطلاع مل جائے گی۔ (اس اقرار کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے اس سے درگذر فرمائی۔ عبدالرزاق نے مصنف میں بوساطت معمر ‘ زہری کا قول نقل کیا ہے کہ وہ عورت مسلمان ہوگئی ‘ اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو چھوڑ دیا۔ سلیمان تیمی نے اسی پر جزم کیا ہے اور روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ اس عورت نے کہا : اور اگر آپ جھوٹے ہیں تو میرے ذریعہ سے لوگوں کو آپ (کی فتنہ انگیزی) سے سکھ مل جائے گا۔ اب مجھ پر ظاہر ہوگیا کہ آپ سچے ہیں ‘ میں آپ کو اور آپ کے پاس جو لوگ موجود ہیں ‘ ان کو گواہ بناتی ہوں کہ میں آپ کے دین پر ہوں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ جب وہ مسلمان ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے تعرض نہیں کیا۔ بزار نے حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے بیان کیا ہے کہ اس یہودن سے دریافت کرنے اور اس کے اقرار کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنا ہاتھ بکری کے گوشت کی طرف بڑھایا اور ساتھیوں سے فرمایا : اللہ کا نام لے کر کھاؤ۔ چناچہ ہم نے بسم اللہ کہہ کر کھایا اور ہم میں سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ حافظ عماد الدین نے کہا : یہ روایت سخت منکر اور غریب ہے۔ محمد بن عمر نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے حکم سے وہ (سارا) گوشت جلا دیا گیا۔ حضرت جابر کی روایت ہے کہ جب حضرت بشر بن براء کا انتقال ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ کے حکم سے اس یہودن کو قتل کرا دیا گیا ‘ رواہ ابو داؤد عن محمد بن عامر باسانید لہٗ ۔ اس روایت میں ہے کہ اس یہودن کو بشر کے اولیاء کے سپرد کردیا گیا اور انہوں نے اس کو قتل کردیا۔ بیہقی نے کہا : احتمال ہے کہ پہلے چھوڑ دیا ہو (پھر قتل کرا دیا ہو) سہیلی نے کہا : آپ اپنی ذات کا انتقام لینا نہیں چاہتے تھے ‘ اسلئے (پہلے) چھوڑ دیا ‘ پھر حضرت بشر کے قصاص میں قتل کرا دیا۔ حافظ نے کہا : چونکہ وہ مسلمان ہوگئی تھی ‘ اسلئے چھوڑ دیا ‘ پھر جب حضرت بشر کا انتقال ہوگیا تو قصاص واجب ہوگیا ‘ اسلئے قتل کرا دیا۔ حضرت جعفر بن ابی طالب کی حبشہ سے واپسی حضرت ابو موسیٰ اشعری نے فرمایا : ہم یمن میں تھے ‘ وہاں ہم کو اطلاع ملی کہ رسول اللہ ﷺ مکہ سے (مدینہ کو) روانہ ہوگئے۔ ہم بھی وطن سے ہجرت کر کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچنے کے اراد سے چل پڑے (لیکن) کشتی نے ہم کو حبشہ میں جا پھینکا۔ وہاں حضرت جعفر بن ابن طالب سے ہماری ملاقات ہوگئی۔ حضرت جعفر نے فرمایا : تم بھی ہمارے ساتھ یہیں ٹھہر جاؤ۔ ہم بھی حضرت جعفر کے ساتھ یہیں قیام پذیر ہوگئے (پھر کچھ مدت کے بعد) جب رسول اللہ ﷺ خیبر فتح کرچکے تھے تو ہم بھی حضور ﷺ کی خدمت میں جا پہنچے۔ آپ نے (مال غنیمت میں) ہمارا بھی حصہ لگا دیا۔ سوائے اصحاب سفینہ (یعنی حضرت جعفر ‘ حضرت موسیٰ اور دوسرے مہاجرین حبشہ) کے کسی ایسے شخص کو خیبر کے مال میں حصہ دار نہیں بنایا جو فتح خیبر کے وقت وہاں موجود نہ تھا۔ حضرت جعفر بن ابی طالب کے پہنچنے پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بخدا ! میں نہیں جانتا کہ دونوں باتوں میں سے کس سے مجھے زیادہ خوشی ہوئی ‘ خیبر کی فتح سے یا جعفر کے واپس آنے سے۔ حضرت جعفر نے جب رسول اللہ ﷺ کی طرف نظر اٹھائی تو (آپ پر) کچھ خجالت طاری ہوگئی۔ حضور ﷺ نے حضرت جعفر کے ساتھیوں سے فرمایا : تمہارے لئے دو ہجرتیں ہیں (مکہ سے حبشہ کو جانا اور ترک وطن کرنا ‘ پھر حبشہ سے مدینہ میں آنا) حضور ﷺ نے حضرت جعفر کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا (یعنی پیشانی چوم لی) رواہ البیہقی۔ حضرت ابوہریرہ اور قبیلۂ دوس والوں کا آنا حضرت ابوہریرہ کا بیان ہے : میں اور قبیلۂ دوس کے اسی گھر مدینہ میں آئے ‘ پھر خیبر میں اس وقت پہنچے جب رسول اللہ ﷺ نطاۃ کو فتح کرچکے تھے اور کثیبہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔ ہم سب وہیں ٹھہر گئے ‘ یہاں تک کہ اللہ نے فتح عنایت فرما دی۔ حضور ﷺ نے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مال غنیمت میں ہمارے حصے بھی لگا دئیے ‘ رواہ احمد والبخاری فی التاریخ والحاکم و البیہقی وابن خزیمہ والطحاوی۔ فدک کا قصہ خیبر میں رسول اللہ ﷺ نے جو (خیبر والوں کے ساتھ) معاملہ کیا ‘ فدک والوں کو جب اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے درخواست صلح کیلئے ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا اور گذارش کی کہ ہماری جانوں کی حفاظت کی ذمہ داری آپ لے لیں اور ہم کو چلے جانے دیں ‘ ہم سارا مال یہیں آپ کیلئے چھوڑ جائیں گے۔ حضور ﷺ نے یہ عرضداشت قبول فرما لی ‘ لیکن شرط یہ لگا دی کہ (اب تو تم یہیں ٹھہرو اور کام کرو) آئندہ ہم جب چاہیں گے تم کو نکال دیں گے۔ اہل فدک اس پر راضی ہوگئے (چونکہ خیبر پر قبضہ جنگ کے بعد ہوا تھا ‘ اسلئے) خیبر (کے مال) میں سب مسلمان مجاہد شریک ہوئے اور فدک (پر قبضہ بغیر جنگ کے ہوا تھا ‘ اسلئے) خالص رسول اللہ ﷺ کی ملکیت رہا۔ مسلمانوں کو فدک پر گھوڑے اور اونٹ دوڑانے (یعنی لشکر کشی کرنے) کی ضرورت نہیں پڑی۔ حضرت عمر نے اہل خیبر کی طرح ان کو بھی جلاوطن کردیا۔ خیبر کے مال غنیمت کی تقسیم وطیح اور سلالم صلح سے فتح ہوئے ‘ اسلئے ان دونوں مقاموں کا مال مسلمانوں کو پیش آنے والے حوادث کیلئے مخصوص کردیا گیا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری اور اصحاب السفینہ اور قبیلۂ دوس والوں کو رسول اللہ ﷺ نے اسی مال میں سے کچھ حصہ عطا فرمایا تھا۔ حضرت موسیٰ بن عقبہ نے جو فرمایا تھا کہ خیبر کا کچھ حصہ صلح سے فتح ہوا تھا ‘ اس سے مراد یہی (وطیح اور سلالم کی) فتح تھی۔ رہی یہ بات کہ رسول اللہ ﷺ نے شرکاء حدیبیہ سے مشورہ کیا تھا تو یہ صرف آیت وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ کے زیر حکم عام مشورہ تھا ‘ کسی کے استحقاق کو کم کرنا مقصود نہ تھا۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ خیبر میں صرف شق ‘ نطاۃ اور کثیبہ کے مال کی تقسیم ہوئی تھی۔ کثیبہ کے مال کا پانچواں حصہ رسول اللہ ﷺ کے اقارب ‘ یتامیٰ ‘ مساکین ‘ مسافر ‘ ازواج مطہرات اور ان لوگوں کیلئے تھا جنہوں نے رسول اللہ ﷺ اور اہل فدک کے درمیان مراسلت اور پیام سانی کی خدمت انجام دی تھی۔ انہی میں سے حضرت محیصہ بن مسعود تھے جن کو تیس وسق جو اور تیس وسق چھوارے دئیے گئے۔ رہے نطاۃ اور شق ‘ ان دونوں مقاموں کا مال صرف مجاہدین کے حصہ میں آیا۔ نطاۃ کے مال کے پانچ سہام اور شق کے مال کے تیرہ سہام رسول اللہ ﷺ نے بنائے ‘ کل اٹھارہ سہام رسول اللہ ﷺ نے قائم کئے۔ یہ سارا مال شرکاء حدیبیہ کو دیا گیا جن کی کل تعداد ایک ہزار چار سو تھی۔ ان میں سے صرف حضرت جابر بن عبد اللہ (باوجو حدیبیہ میں ہونے کے) خیبر سے غیرحاضر تھے ‘ باقی تمام شرکاء حدیبیہ خیبر میں موجود رہے۔ حضرت جابر کو بھی اتنا ہی حصہ دیا گیا جتنا خیبر میں موجود رہنے والے کسی ایک شخص کو دیا گیا۔ پیدل کو اکہرا حصہ اور سوار کو دوہرا حصہ۔ ایک حصہ گھوڑے کا اور ایک حصہ سوار کا ‘ گھوڑوں کی تعداد دو سو تھی۔ رسول اللہ ﷺ کا حصہ بھی اس مال میں ایک مجاہد کے برابر تھا۔ وادئ قریٰ کی فتح کا واقعہ جب رسول اللہ ﷺ خیبر سے وادئ قریٰ کی طرف لوٹے تو وہاں کے رہنے والوں کو اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے انکار کیا تو آپ نے طاقت سے (یعنی جنگ کرنے کے بعد) وادئ قریٰ کو فتح کرلیا اور وہاں کے باشندوں کا مال بطور مال غنیمت تقسیم کردیا گیا۔ وہاں مسلمانوں کے ہاتھ بڑا سامان اور اسباب آیا۔ کل مال غنیمت کا پانچواں حصہ رسول اللہ ﷺ کو حاصل ہوا۔ زمین یہودیوں کے ہی قبضہ میں رہنے دی گئی اور (پیداوار کے متعلق) ان سے بھی وہی معاملہ کیا گیا جو خیبر والوں سے کیا گیا تھا۔
Top