Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 92
وَ لَقَدْ جَآءَكُمْ مُّوْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ جَآءَكُمْ : تمہارے پاس مُوْسٰى : موسیٰ بِالْبَيِّنَاتِ : کھلی نشانیاں ثُمَّ : پھر اتَّخَذْتُمُ : تم نے بنالیا الْعِجْلَ : بچھڑا مِنْ بَعْدِهٖ : اس کے بعد وَاَنْتُمْ : اور تم ظَالِمُوْنَ : ظالم ہو
اور موسیٰ تمہارے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آیا۔ پھر تم نے اس کے بعد بچھڑے کو معبود بنا لی اور تم اپنے اوپر ظلم ڈھانے والے بنے
یہ یہود کے دعوائے ایمان کی مزید تردید ہے اور اس تردید کا خاص پہلو یہ ہے کہ ان کی ابتدائی تاریخ کے واقعہ گوسالہ پرستی کو یاد دلا کر نہ ان کو سرزنش کی گئی ہے کہ آج تم نے اپنے ایمان اور اپنی دین داری کی حکایت اتنی بڑھا رکھی ہے کہ نہ قرآن کو خاطر میں لانے کے لئے تیار ہو نہ پیغمبر آخرالزمان ﷺ کو، حالانکہ تمہارے اس ایمان کا حال آج تو درکنار شروع سے یہ رہا ہے کہ عین موسیٰ علیہ السلام کی موجودگی میں، ان کے کھلے کھلے معجزات کو دیکھتے ہوئے تم نے اپنے رب کو چھوڑ کر ایک بچھڑے کی عبادت شروع کر دی۔ یہود کے اسی قسم کے فخر پر بعض انبیاء نے بھی ان کو سرزنش کی ہے اور اسی واقعہ گوسالہ پرستی کی طرف تعریض کرتے ہوئے یہ الفاظ تک فرمائے کہ“اے اسرائیل (بنی اسرائیل) تو تو وہ ہے کہ تو نے پہلی شب میں بے وفائی کی”۔ قرآن کے الفاظ اس کے اپنے مرتبہ کے شایان شان ہیں لیکن بات وہی کہی گئی ہے جو سابق انبیاء نے فرمائی تھی۔ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوۡنَ ٹھیک ٹھیک وَاَنْتُمْ مُشْرِکُوْنَ کے معنی میں ہے۔ قرآن میں شرک کو متعدد مقامات میں ظلم کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ظلم کا اصلی مفہوم حق تلفی ہے۔ خدا کے حقوق اور خود اپنے نفس کی جو حق تلفی آدمی شرک کا ارتکاب کر کے کرتا ہے وہ کسی بھی اور دوسرے طریقہ سے نہیں کرتا۔ اس کی وضاحت قرآن مجید نے متعدد مقامات میں کی ہے۔ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْم۔
Top