Tadabbur-e-Quran - Al-Hajj : 66
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَحْیَاكُمْ١٘ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : جس نے اَحْيَاكُمْ : زندہ کیا تمہیں ثُمَّ : پھر يُمِيْتُكُمْ : مارے گا تمہیں ثُمَّ : پھر يُحْيِيْكُمْ : زندہ کرے گا تمہیں اِنَّ الْاِنْسَانَ : بیشک انسان لَكَفُوْرٌ : بڑا ناشکرا
اور وہی ہے جس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر وہ تم کو موت دیتا ہے، پھر وہ تم کو زندہ کرے گا۔ بیشک انسان بڑا ہی ناشکرا ہے
سرکشی کی اصل عظمت یہ آخرت کی یاد دہانی فرما دی کہ اگر اس دنیا میں عذاب نہ آئے تو یہ کون سی اطمینان کی بات ہے ؟ آگے آخرت جو موجود ہے ! بالآخر لوٹنا تو سب کو اللہ ہی کی طرف ہے۔ خدا ہی نے زندگی بخشی ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ پھر وہی زندہ اٹھا کھڑا کرے گا۔ جب اس کو پہلی مرتبہ پیدا کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی تو آخر دوبارہ اٹھا کھڑا کرنے میں اس کو کیں دشواری پیش آئے گی ! ان الانسان لکفورٌ یہ اس ساری سرکشی کی اصل علت بیان ہوئی ہے کہ جہاں تک قرآن اور پیغمبر ﷺ کی باتوں کا تعلق ہے وہ تو بالکل واضح ہیں، ان میں کسی بحث و نزاع کی گنجائش نہیں ہے لیکن یہ لوگ نہایت ناشکرے اور ناقدرے ہیں۔ لفظ انسان سے اشارہ نو یہاں انہی مخالفین کی طرف ہے لیکن اظہار نفرت کے طور پر بات ان کو خطاب کر کے کہنے کے بجائے عام لفظ سے فرما دی گئی ہے۔ اس اسلوب میں اظہار حسرت کا مضمون بھی پایا جاتا ہے جس کی طرف ہم اس کے محل میں اشارہ کرچکے ہیں۔
Top