Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 66
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَحْیَاكُمْ١٘ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : جس نے اَحْيَاكُمْ : زندہ کیا تمہیں ثُمَّ : پھر يُمِيْتُكُمْ : مارے گا تمہیں ثُمَّ : پھر يُحْيِيْكُمْ : زندہ کرے گا تمہیں اِنَّ الْاِنْسَانَ : بیشک انسان لَكَفُوْرٌ : بڑا ناشکرا
اور وہی ہے جس نے تمہیں زندگی بخشی وہ موت طاری کرتا ہے پھر زندہ کرے گا در اصل انسان بڑا ہی ناشکرا ہے
وہی ہے جس نے تم کو زندگی بخشی اور اسی نے موت بھی لازم کردی : 66۔ آپ کا انکار کیوں اور کیسے ہے ؟ محض اس لئے کہ اس نے تم کو زندہ کیا لیکن تم اس کی عطا کردہ زندگی کا ماننے والے نہیں تمہارے زعم میں ہے کہ ہم ایسے ہی بغیر کسی کے پیدا کرنے کے پیدا ہوگئے ہیں لیکن ایسی بات ہے تو پھر تم مرتے کیوں ہو جب کہ مرنے پر تمہاری خواہش اور مرضی بھی نہیں ہوتی پھر یہی نہیں بلکہ تم مرنے سے پہلے کتنی سٹیجوں سے گزرے ‘ جوانی تک پہنچ کر گزشتہ ساری تبدیلیوں کو تم نے پس پشت ڈال دیا اور اب تم کندھوں پر تھوکنے لگے اس جوانی نے تم کو ایسا مست کیا کہ تم گزشتہ اپنی پیدائش سے لے کر جوانی تک کے ایک ایک مرحلہ کو بھول گئے لیکن اب اس جوانی کو بھی تم سنبھال نہ سکے اور آہستہ آہستہ باوجود تمہاری ساری احتیاطوں کے تم بڑھاپے کی طرف رواں دواں ہوگئے ‘ آخر کیوں ؟ اس لئے کہ بوڑھا ہونے کو تمہارا جی چاہ رہا تھا ؟ یا اس لئے نہ رکھ سکے ورنہ تم نے ایک نہیں ہزار جتن کئے کہ میں بوڑھا نہ ہوں اس کے باوجود قانون الہی کے مطابق تم ہوتے ہوتے بوڑھے ہوگئے ، اب تمہاری زندگی دوسروں کے سہارے سے وابستہ ہو کر رہ گئی اور پھر ایک دن آیا کہ تم موت کی آغوش میں چلے گئے ان سارے کاموں میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جو تمہاری مرضی کے تابع ہوا بلکہ تم اس نظام کے تابع رہ کر زندگی کے ایک ایک لمحہ کو گزارتے رہے اور اس کے باوجود کتنے ضدی اور کتنے ہی جاہل وبیوقوف ثابت ہوئے کہ اس نظام سے تم نے انکار کیا اور تم کو تعجب ہوا کہ مرنے کے بعد بھلا دوبارہ کیسے زندہ ہو سکتے ہیں یہ تو ایک ڈھکوسلا ہے اگر دوبارہ پیدا کیا جانا ڈھکوسلا ہے تو پہلی بار زندہ ہونا کیا ہوا ؟ تمہیں بتایا گیا تھا کہ یہ زندگی دارالعمل کی زندگی ہے اس سے نکال کر تم کو دارالجزاء کی طرف منتقل کردیا جائے گا اور پھر وہاں تم کو تمہارے سارے کئے کی جزا دی جائے گی ، تم نے اپنی پہلی زندگی کو مانا اور تسلیم کیا کیوں ؟ اس لئے کہ اس کے سوا تمہارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ تم زندہ نظر آرہے تھے پھر تم نے جو کچھ کیا وہ اپنی مرضی کے مطابق کیا تم کو بتایا گیا کہ اس طرح مرضی کرنے سے کیا نقصان نہیں ہوا اگر تمہارا کہنا صحیح ہوتا تو ہمارا یقینا وہ نقصان ہوچکا ہوتا تمہیں مہلت دیئے جانے کی حکمت بتائی گئی اور دارالجزاء کو منتقل ہونے کے بعد تک تمہارے اس مطالبہ کو مؤخر کرتے رہے لیکن تم نے دارالجزاء میں پہنچنے ہی سے انکار کردیا اور اب تم کو بہرحال اس ناشکری اور ناقدری کا مزہ چکھنا ہی ہوگا تمہارے ماننے یا ناماننے سے کیا ہوتا ہے ؟ جس کو ہونا ہے اس کو تو یقینا ہونا ہی ہے ایسے انسانوں سے نفرت الہی کی صورت بھی ملاحظہ کرتے جاؤ کہ ایسے انسانوں کو مخاطب کرنے کے لئے بھی براہ راست ان سے خطاب نہیں کیا بلکہ عام لفظ سے کیا اظہار نفرت کے وقت انسان اکثر اوقات اپنے مخالف کا نام لینے کا عادی نہیں ہے ۔
Top