Tadabbur-e-Quran - Al-Hajj : 67
لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَ١ؕ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ
لِكُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیا مَنْسَكًا : ایک طریق عبادت هُمْ : وہ نَاسِكُوْهُ : اس پر بندگی کرتے ہیں فَلَا يُنَازِعُنَّكَ : سو چاہیے کہ تم سے نہ جھگڑا کریں فِي الْاَمْرِ : اس معاملہ میں وَادْعُ : اور بلاؤ اِلٰى رَبِّكَ : اپنے رب کی طرف اِنَّكَ : بیشک تم لَعَلٰى : پر هُدًى : راہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھی
اور ہم نے ہر امت کے واسطے ایک طریقہ ٹھہرا دیا ہے تو وہ اسی پر چلیں گے۔ تو وہ اس معاملے میں تم سے نزاع کی راہ نہ پائیں اور اپنے رب کی طرف بلاتے رہو۔ بیشک تم ہی سیدھی راہ پر ہو
لفظ منک پر آیت 34 میں بحث گزر چکی ہے۔ یہاں یہ لفظ طریقہ عبادت، شریعت کے ظاہری ڈھانچہ اور اس کے قواعد و ضوابط کے لئے آیا ہے۔ مناظرہ بازوں سے گریز کرنے کی ہدایت پچیھے اسی سورة میں یہ تفصیل بھی گزر چکی ہے کہ اس دور میں یہو داور نصاریٰ بھی کھلم کھلا قریش کا ساتھ دے رہے تھے بلکہ اس مناظرہ بازی کو سب سے زیادہ غذا دہی بہم پہنچا رہے تھے۔ اس وجہ سے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے ہر امت کے لئے ایک ضابطہ ٹھہرایا تھا اور مقصود اس سے یہ تھا کہ یہ اس ضابطہ کے مطباق خدا کی عبادت کریں اور جب خدا اس میں کوئی تبدیلی کر دے تو اس کو بھی دل و جان سے قبول کرلیں تاکہ یہ ان کے مخالصین و جامدین میں امتیاز کی کسوٹی ہو، چناچہ ہر رسول کے زمانے میں شریعت کے ظاہری دھانچہ میں تبدیلایں بھی ہوئیں اور مبتدعین کی پیدا کردہ بدعتوں کی اصلاح بھی ہوئی جن کے اندر حق کی طالب تھی انہوں نے یہ اصلاح صدق دل سے قبول کرلی لیکن جو لکیر کے فقیر اور رسوم وعواید کے پجاری تھے وہ پتھر کی طرح اپنی ضد ہی پر جمے اور اپنی مالوفات کی عصبیت میں حق کے خلاف مناظرہ بازیاں کرتے رہ گئے۔ فرمایا کہ یہ حال تمہارے ان مخالفین کا بھی ہے۔ یہ بھی اپنے جمود اور جاہلیت عصبیت کے سب سے اس ڈگر کو چھوڑ والے نہیں ہیں جس پر چلتے آ رہے ہیں تو اب ان کے پیچھے زیادہ پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ فلاینا زعنک فی الامر یعنی اب ان کو کوئی ایسا موقع نہ دو کہ ان کو تم سے مناظرے کی کوئی راہ ملے۔ بس اپنے رب کی جس سیدھی راہ پر تم گامزن ہو اس کی طرف ان کو بھی دعوت دے دو۔ اگر وہ آتے ہیں تو فبہا، اگر نہیں آتے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ بیشک تم ایک سدیھی راہ پر ہو تو جو سیدھی راہ پر ہے اس کو اس سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے کہ دوسرے غلط راہ پر جا رہے ہیں بعینیہ یہی مضمون معمولی الفاظ کے ساتھ قرآن کے دور سے مقامات میں بھی پیچھے گزر چکا ہے۔ ہم بعض آیات کی طرف اشارہ کئے دیتے ہیں، سورة بقرہ میں قبلہ کی بحث کے آخر میں ارشاد ہوا ہے۔ ولکل وجھۃ ھومولیھا فاستبقوا الخیرت (بقرہ :148) ہر ایک کے لئے ایک سمت ہے اسی کی طرف رخ کرے گا تو تم بھلائیوں کی سمت میں سبقت کرو۔ سورة مائدہ میں فرمایا لکل جعلنا منکم شرعۃ و منھا جاً ولوشآء اللہ لجعلکم امۃ فاحدۃ ولکن لیبلوکم فیمآ اتکم فاستبقوا الخیرات (مائدہ :48) ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے ایک ضابطہ اور ایک طریقہ ٹھہرایا اور اگر اللہ چاہتا تو تم کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن اس نے چہا کہ اس چیز میں تمہاری آزمائش کرے جو اس نے تم کو بخشی تو بھلائیوں کے لئے ایک دوسرے پر سبق کرنے کی کوشش کرو۔ یہ اظہار رواداری مذکورہ بالا آیات کی تفسیر پر، ایک نظر ڈال لیجیے۔ ہم نے ان آیات کے تحت یہ حقیقت بھی اچھی طرح واضح کردی ہے کہ یہ یہود و نصاریٰ کے ساتھ رواداری کی ہدایت نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے بلکہ یہ ان کے رویہ سے بیزاری کا اظہار و اعلان ہے۔
Top