Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 59
اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْهِ وَ جَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
اِنْ هُوَ : نہیں وہ اِلَّا عَبْدٌ : مگر ایک بندہ اَنْعَمْنَا عَلَيْهِ : انعام کیا ہم نے اس پر وَجَعَلْنٰهُ : اور بنادیا ہم نے اس کو مَثَلًا : ایک مثال لِّبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : اسرائیل کے لیے
وہ تو بس ہمارا ایک بندہ تھا جس پر ہم نے اپن افضل فرمایا اور بنی اسرائیل کے لئے اس کو ایک مثال بنایا
ان ھوالا عبدانعمنا علیہ وجعلنہ مثلاً لبنی اسرآئیل 59 حضرت عیسیٰ کی اصل حیثیت یعنی قرآن ان کی مثال جو پیش کر رہا ہے تو ایک معبود کی حیثیت سے نہیں بلکہ صرف اس حیثیت سے پیش کر رہا ہے کہ وہ اللہ کے ایک بندے تھے جن پر اس نے اپنا خاص فضل فرمایا اور بنی اسرائیل کے لئے ان کو ایک نمونہ بنایا کہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ زندگی کی مثال یہ ہے۔ خاص فضل سے اشارہ ان خصوصیات کی طرف ہے جن کا ذکر قرآن کے دوسرے مقامات میں تفصیل سے ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰنے ان کو بن باپ کے مجرد اپنے کلمہ کن سے پیدا کیا، تائید وروح القدس سے ان کو نوازا، ابھی وہ گہوارے ہی میں تھے کہ نہایت دانائی و حکمت کی باتیں کرنے لگے، پھر اللہ نے ان کو نبوت و رسالت کے منصب پر سرفراز فرمایا۔ انہوں نے لوگوں کو حکمت کی تعلیم دی۔ نہایت حیرت انگیز معجزے دکھائے اور یہود کی کوئی سازش ان کے خلاف اللہ تعالیٰ نے کامیاب نہیں ہونے دی۔ یہاں تک کہ یہود اپنے جس کارنامے پر بہت نازاں ہیں کہ انہوں نے آنجناب کو سولی پر چڑھایا، قرآن نے اس کی بھی تردید کردی کہ اس سازش میں بھی وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ بنی اسرائیل کے لئے مثال مثلاً لبنی اسرآئیل یعنی اللہ تعالیٰ نے آں جناب کو بنی اسرائیل کے لئے ایک نمونہ اور مثال بنایا کہ اس پاکیزہ مثال کو سامنے رکھ کر وہ اپنی زندگی کے تمام کج پیچ درست کرلیں۔ یوں تو ہر رسول اپنی قوم کی اصلاح کے لئے ایک خدائی کسوٹی ہوتا ہے اور اس کے اسوہ حسنہ کی پیروی ہی میں قوم کی نجات مضمر ہوتی ہے لیکن حضرت عیسیٰ ؑ کو اللہ تعالیٰنے ایک خاص نوع کی ولادت اور نہایت کھلے ہوئے معجزات کے ساتھ اس لئے بھیجا کہ بنی اسرائیل جو اپنے انبیاء کی تمام تعلیمات بھلا کر بالکل اندھے بہرے بن گئے تھے آنکھیں کھولیں لیکن وہ ایسے تمسی القلب نکلے کہ اس مثال سے بھی انہوں نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا جس کی پاداش میں اللہ تعالیٰنے ان پر ہمیشہ کے لئے لعنت کردی۔
Top