Kashf-ur-Rahman - Az-Zukhruf : 59
اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْهِ وَ جَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
اِنْ هُوَ : نہیں وہ اِلَّا عَبْدٌ : مگر ایک بندہ اَنْعَمْنَا عَلَيْهِ : انعام کیا ہم نے اس پر وَجَعَلْنٰهُ : اور بنادیا ہم نے اس کو مَثَلًا : ایک مثال لِّبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : اسرائیل کے لیے
وہ عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) محض ایک بندہ ہے جس پر ہم نے اپنا فضل کیا تھا اور بنی اسرائیل کے لئے اس کو ایک نمونہ قدرت بنایا تھا۔
(59) وہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) محض ایک ایسا بندہ ہے جس پر ہم نے اپنا انعام اور فضل کیا تھا اور بنی اسرائیل کے لئے اس کو ایک نمونہ قدرت بنایا تھا۔ اورر جو بندہ ہمارا منعم علیہ ہو ظاہر ہے کہ وہ خیر ہونے سے خالی نہ ہوگا۔ بخلاف اصنام اور شیاطین کے کہ ان میں یہ خیرت نہیں اور خاص طور پر شیاطین میں تو ایک اور بھی مانع خیرت موجود ہے اور وہ ان کا کفر ہے پس ابن مریم (علیہ السلام) چونکہ اللہ تعالیٰ کے منعم علیہ ہیں اس لئے ان کے خیر ہونے پر ان کا معبود من غیر اللہ ہونا موثر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابن مریم (علیہ السلام) میں اور دوسرے اصنام اور شیاطین میں فرق ہے اور آپ کی قوم کا خوش ہوکر غل مچانا اور یہ سمجھنا کہ ہم نے محمد کو لاجواب کردیا محض جہالت اور ناسمجھی ہے اور یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابن مریم یا حضرت عزیر یا جلیل القدر فرشتے ان سب میں خیر ہے اور دوسرے اصنام اور شیاطین وغیرہ میں خیر نہیں۔ باقی انکم وماتعدون۔ پر جو اعتراض تھا اس کا جواب سورة انبیاء میں گزر چکا ہے۔ ہماری اس مختصر تفصیل کے بعد ہم کو امید ہے کہ عبداللہ ابن زبعری اور اس کے ساتھیوں کے اعتراض اور اس کا جواب سمجھ میں آگیا ہوگا بنی اسرائیل کے نمونہ قدرت کا مطلب یہ ہے کہ ابتداء بنی اسرائیل کے لئے اور بعد میں تمام امتوں کے لئے ان کی ذات گرامی ایک نمونہ قدرت تھی اور ہم تو اگر چاہیں تو اس سے بھی زیادہ اپنی قدرت کے کرشموں کا اظہار کرسکتے ہیں وہ یہ کہ۔
Top