Tafheem-ul-Quran - Az-Zukhruf : 59
اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْهِ وَ جَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
اِنْ هُوَ : نہیں وہ اِلَّا عَبْدٌ : مگر ایک بندہ اَنْعَمْنَا عَلَيْهِ : انعام کیا ہم نے اس پر وَجَعَلْنٰهُ : اور بنادیا ہم نے اس کو مَثَلًا : ایک مثال لِّبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : اسرائیل کے لیے
ابنِ مریم ؑ اِس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا اور بنی اسرائیل کے لیے اپنی قدرت کا ایک نمونہ بنا دیا۔53
سورة الزُّخْرُف 53 قدرت کا نمونہ بنانے سے مراد حضرت عیسیٰ کو بےباپ کے پیدا کرنا، اور پھر ان کو وہ معجزے عطا کرنا ہے جو نہ ان سے پہلے کسی کو دیے گئے تھے نہ ان کے بعد۔ وہ مٹی کا پرندہ بناتے اور اس میں پھونک مارتے تو وہ جیتا جاگتا پرندہ بن جاتا۔ وہ مادر زاد اندھے کو بینا کردیتے۔ وہ کوڑھ کے مریض کو تندرست کردیتے۔ حتیٰ کہ وہ مردے جلا دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ محض اس غیر معمولی پیدائش اور ان عظیم معجزات کی وجہ سے ان کو بندگی سے بالا تر سمجھنا اور خدا کا بیٹا قرار دے کر ان کی عبادت کرنا غلط ہے۔ ان کی حیثیت ایک بندے سے زیادہ کچھ نہ تھی جسے ہم نے اپنے انعامات سے نواز کر اپنی قدرت کا نمونہ بنادیا تھا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، آل عمران، حواشی 42 تا 44، النساء، 19، المائدہ، حواشی 40۔ 46۔ 127، جلد سوم، مریم، حواشی 15 تا 22، الانبیاء، حواشی، 88 تا 90، المومنون، حاشیہ 43
Top