Tadabbur-e-Quran - Ar-Rahmaan : 14
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِۙ
خَلَقَ الْاِنْسَانَ : اس نے پیدا کیا انسان کو مِنْ صَلْصَالٍ : بجنے والی مٹی سے كَالْفَخَّارِ : ٹھیکری کی طرح
اس نے پیدا کیا انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے
(خلق الانسان من صلصال کا لفخار وخلق الجان من مارج من نار فبای الا ربکما تکذین) (14۔ 16) (انسانی خلقت کے مختلف مراحل سے قیامت پر استدلال) یہ جنوں اور انسانوں دونوں کو ان کی خلقت یاد دلا کر ان کی دوسری خلقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس غلطی فہمی میں نہ رہو کہ تمہارا رب ایک مرتبہ پیدا کرنے کے بعد تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں رہا اس وجہ سے اب کسی روز حساب کا معاملہ خارج از امکان ہوگیا۔ یادرکھو کہ جس میٹریل سے اس نے تم کو پیدا کیا ہے وہ میٹریل بھی پوری مقدار میں موجود ہے اور خدا کی قدرت تخلیق بھی اسی طرح موجود ہے جس طرح تمہاری خلقت اول کے وقت موجود تھی تو اگر تم اپنی خلقت کا انکار نہیں کرسکتے تو اپنی دوبارہ پیدائش سے انکار کی بھی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ (صلصال) خالص مٹی کو کہتے ہیں اور فخار اس مٹی کو کہتے ہیں جو ٹھیکرے کی طرح خشک ہوجائے۔ زندگی جن مراحل سے گزرتی ہوئی انسانیت کے مرحلے تک پہنچتی ہے قرآن نے جگہ جگہ ان تمام مراحل کا حوالہ دیا ہے۔ کہیں فرمایا ہے، انسان کو پانی سے پیدا کیا، کہیں مٹی کا حوالہ دیا ہے، کہیں سڑے ہوئے گارے کا ذکر کیا ہے۔ یہاں خشک مٹی کا ذکر ہے۔ اسی طرح سب سے آخری مرحلہ یہ بیان ہوا ہے کہ نطفہ سے اس کی نسل جاری کی۔ یہ انسانی زندگی کے ارتقائی مراحل ہیں جن کی وضاحت سورة حجر آیت 26 کے تحت ہوچکی ہے۔ ان مراحل کے بیان سے مقصود انسان کو خود اس کے وجود کے اندر خدا کی شانوں، قدرتوں اور حکمتوں کا مشاہدہ کرانا ہے تاکہ انسان پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجائے کہ یہ خدا ہی کی شان ہے کہ اس نے اس کو پانی اور کیچڑ سے نکالا، پھر میدانی علاقوں کی خشک و معتدل آب و ہوا میں اس کی پرورش کی، پھر درجہ بدرجہ اس کو ایک نیا ہیولی بخشا اور اس کی نسل چلانے کے لیے ایک نیا نظام قائم فرمایا۔ ان باتوں کے بیان سے ظاہر ہے کہ مقصود یہ ثابت کرنا ہے کہ جس انسان کو اللہ تعالیٰ ان طویل راستوں سے گزار کر اس اہتمام سے یہاں تک لایا ہے اس کا وجود بےغایت و بےمقصد نہیں ہوسکتا اور ساتھ ہی یہ دکھانا بھی ہے کہ جو خدائے علیم و حکیم کیچڑ کے اندر پیدا ہونے والے ایک خلیہ کو انسان بنا دے سکتا ہے اس کی قدرت سے کوئی بات بھی بعید نہیں ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (جنات کی خلقت آگ کے شعلہ سے ہوئی)۔ (وخلق الجان سن مارج من تار)۔ ’ مارج ‘ کے معنی شعلہ کے ہیں۔ شعلہ آگ کا خلاصہ ہوتا ہے۔ جس طرح انسان مٹی کے خلاصہ اور جوہر سے پیدا ہوا ہے اسی طرح جنات کی پیدائش آگ کے جو ہر سے ہوئی ہے ان کے مدارج حیات کی زیادہ تفصیل قرآن نے نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بالکل مختلف نوع کے تمام مدارج خلقت کو سمجھنا ہمارے لیے نہایت مشکل تھا۔ اس کے بعد وہی آیت ترجیح ہے جس کی وضاحت اوپر ہوچکی ہے۔ اس کا مطلب یہاں ہوگا کہ جب اپنے رب کی یہ شانیں اور یہ قدرتیں و حکمتیں خود اپنے وجود کے اندر مشاہدہ کرتے ہو تو اس بات کو کیوں بعید از امکان سمجھتے ہو کہ خدا تمہیں دوبارہ حساب کتاب کے لیے اٹھا کھڑا کرے، آخر اپنے کی رب کی کتنی نشانیوں کو جھٹلاتے اور نئی نشانیوں کا مطالبہ کرتے رہوگے !
Top