Al-Qurtubi - Al-Insaan : 23
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلًاۚ
اِنَّا : بیشک ہم نَحْنُ نَزَّلْنَا : ہم نے نازل کیا عَلَيْكَ : آپ پر الْقُرْاٰنَ : قرآن تَنْزِيْلًا : بتدریج
ہم ہی نے تم پر قرآن نہایت اہتمام سے اتارا ہے
نبی صلعم کو صبر اور انتظار کی تلقین: جس محل میں سورۂ قیامہ میں آیت: ’لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ‘ (۱۶) آئی ہے بعینہٖ اسی محل میں اور اسی مقصد سے اس سورہ میں یہ آیت ہے۔ یعنی منکرین اور مومنین کا انجام بیان کرنے کے بعد نبی ﷺ کو صبر اور انتظار کی تلقین فرمائی گئی ہے کہ تم صبر کے ساتھ اپنا کام کیے جاؤ اور اپنے رب کے فیصلہ کا انتظار کرو۔ ان لوگوں کے سامنے وہ سب کچھ آ کے رہے گا جس سے قرآن ان کو آگاہ کر رہا ہے۔ ’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْْکَ الْقُرْآنَ تَنزِیْلاً‘۔ یعنی یہ قرآن نہ تم نے اپنے جی سے لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے اور نہ اس کو تم نے ہم سے مانگ پر اپنے اوپر نازل کرایا ہے کہ اس کی پیش کردہ صداقتوں اور حقیقتوں کو ثابت کرنے اور لوگوں کو ان کے دکھا دینے کی ذمہ داری تمہارے اوپر ہو بلکہ یہ ہم ہیں جنھوں نے نہایت اہتمام سے اس کو تمہارے اوپر نازل کیا ہے۔ ’اِنَّا نَحْنُ‘ کے الفاظ میں جس زور اور جس عظمت و جلالت کا اظہار ہے اس پر نظر رہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب ہم نے یہ قرآن تم پر اتارا ہے تو لوگوں کی مخالفتوں اور ان کی ژاژخائیوں کی پروا تم کیوں کرو! ان سے نمٹنے کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے اور ہم سب سے نمٹ لینے کے لیے تنہا کافی ہیں۔ لفظ ’تَنۡزِیْل‘ جس اہتمام کی طرف اشارہ کر رہا ہے اس سے مقصود اس حقیقت کا اظہار ہے کہ یہ قرآن نہ تو کسی سائل کی درخواست ہے اور نہ یہ کوئی ہوائی بات ہے کہ ان لوگوں کی مخالفت سے یہ ہوا میں اڑ جائے بلکہ یہ نہایت اہتمام سے اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب ہے جس کی ہر بات پوری ہو کے رہے گی، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
Top