Tadabbur-e-Quran - Al-Insaan : 5
اِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًاۚ
اِنَّ : بیشک الْاَبْرَارَ : نیک بندے يَشْرَبُوْنَ : پئیں گے مِنْ : سے كَاْسٍ : پیالے كَانَ مِزَاجُهَا : اس میں آمیزش ہوگی كَافُوْرًا : کافور کی
ہاں ‘ وفادار بندے ایسی شراب کے جام نوش کریں گے جس میں چشمہ کافور کی ملونی ہوگی۔
شکرگزاروں کو انعام: یہ کافروں کے مقابل میں شاکر بندوں کے صلہ کا بیان ہوا ہے اور ان کو ’ابرار‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس لفظ کی تحقیق اس کے محل میں گزر چکی ہے۔ ’برّ‘ کی اصل روح ایفائے عہد و ذمہ ہے اور لفظ ’شکر‘ کی اصل حیثیت نعمت کے حق کو پہچاننا اور اس کو ادا کرنا ہے۔ ان دونوں میں واضح قدر مشترک موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جو بندے اس کی نعمتوں کا حق پہچانتے اور اس کو ادا کرتے ہیں وہی دراصل اس کے وفادار بندے ہیں۔ لفظ ’کَأْسٌ‘ کی تحقیق بھی اس کے محل میں گزر چکی ہے۔ یہ ظرف اور مظروف یعنی شراب اور جام شراب دونوں معنوں میں آتا ہے۔ ’مِزَاجٌ‘ کے معنی ملونی کے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزوں میں بعض اوقات لذت، خوشبو یا ان کے مزاج میں اعتدال پیدا کرنے کے لیے بعض چیزیں ان کے استعمال کے وقت ملائی جاتی ہیں۔ شراب میں بھی اس طرح کی ملونیوں اور بعض دوسرے لوازم کا ذکر عرب شعراء کرتے ہیں۔ اہل جنت کی شراب میں یہ ملونی چشمۂ کافور کے آب زلال کی ہو گی۔ ’کَافُوْرٌ‘ سے مراد یہاں معروف کافور نہیں ہے۔ قرآن نے خود وضاحت فرما دی ہے کہ یہ جنت کا ایک چشمہ ہے جس کے کنارے بیٹھ کر اللہ کے خاص بندے شراب نوش کریں گے اور اس چشمہ کے پانی کی ملونی سے اس کے کیف و سرور کو دوچند کریں گے۔ رہا یہ سوال کہ اس کا نام کافور کیوں رکھا گیا ہے تو ناموں سے متعلق اس طرح کا سوال اگرچہ پیدا نہیں ہوتا تاہم ذہن اس طرف جاتا ضرور ہے کہ اسم اور مسمّٰی میں کوئی مناسبت ہو گی۔ یہ مناسبت کس نوع کی ہے؟ اس کا تعلق متشابہات سے ہے۔ اس کی اصل حقیقت اسی دن اور انھی خاص بندوں پر کھلے گی جن کو اس سے بہرہ مند ہونے کی سعادت حاصل ہو گی۔
Top