Mafhoom-ul-Quran - Al-Insaan : 5
اِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًاۚ
اِنَّ : بیشک الْاَبْرَارَ : نیک بندے يَشْرَبُوْنَ : پئیں گے مِنْ : سے كَاْسٍ : پیالے كَانَ مِزَاجُهَا : اس میں آمیزش ہوگی كَافُوْرًا : کافور کی
جو نیک لوگ ہیں وہ ایسی شراب پئیں گے جس میں کافور ملا ہوگا
اچھے لوگوں کے لیے خوش خبریاں تشریح :۔ سب سے پہلے اس خاص چشمے کا ذکر کیا گیا ہے جس کے پانی کی یہ خاصیتیں ہوں گی صاف ٹھنڈا اور خوشبودار ہوگا۔ یہ کہاں ہوگا اور کون اس کو پئیں گے ؟ تو جواب ہے کہ یہ جنت میں ہوگا اور اس کو صرف وہ لوگ پی سکیں گے جو اللہ کے مقبول نیک متقی اور پرہیزگار ہوں گے۔ دنیا کی زندگی انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق گزاری ہوگی یہاں کچھ چند ایک احکامات کا ذکر کیا گیا ہے۔ 1 ۔ نذریں پوری کرنا جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے نذر نیاز دینا۔ دونوں کا مقصد انتہائی خلوص نیک نیتی اور بھلائی و اصلاح امن و سلامتی اور رضائے الٰہی حاصل کرنا ہونا چاہیے۔ حدیث میں نذر کی وضاحت یوں کی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ نذر ماننے سے منع کرنے لگے کہ وہ کسی ہونے والی چیز کو پھیر نہیں سکتی البتہ اس کے ذریعے کچھ مال بخیل سے نکلوایا جاتا ہے۔ (مسلم ” ابو داؤد) از تفہیم القرآن۔ 2 ۔ حساب کے دن سے جو لوگ خوف کھاتے ہیں۔ یعنی ایسے لوگ کوئی برائی قصداً کر ہی نہیں سکتے۔ ایسے لوگ مبارک ہیں۔ 3 ۔ فقیروں ” یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلانے والے اللہ کے محبوب لوگ ہیں۔ کیونکہ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ دوسروں کی حاجت روائی کرتے ہیں۔ یعنی حب انسانی خلوص محبت رحم دلی ایثار انسان دوستی اور رضائے الٰہی حاصل کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ شرط یہ ہے کہ یہ کام سوائے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے اور کسی بھی مقصد کے لیے نہ کیا جائے۔ اپنی ضرورت سے زیادہ دوسرے انسان کی ضرورت پوری کرنے کا جذبہ اللہ کو بہت زیادہ پسند ہے۔ یہ چند خوبیاں ہیں جنت میں جانے والوں کی۔ جنت کیا ہے ؟ آیت گیارہ سے لے کر 12 تک جنت کا جو نقشہ اللہ تعالیٰ نے کھینچا ہے ذرا آنکھیں بند کر کے اس کا تصور کریں تو بخدا دل چاہتا ہے ابھی اور اسی وقت اس دنیا کو چھوڑ کر وہاں پہنچ جائیں۔ اور اس دنیا میں جتنا بھی وقت ملے صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے اور اس کی خلقت کی خدمت بےلوث خدمت کرنے میں گزاردیں۔ جب ایسی سچائی خلوص اور محبت انسان کے اندر پیدا ہوجائے تو وہ خودبخود نیکی اور بھلائی کی طرف کھینچنے لگتا ہے۔ اور یہ جذبات پیدا کرنے کوئی خاص مشکل کام نہیں بس تلاوت قرآن پاک سمجھ کر کرتے رہیں۔ ہمیشہ کرتے رہیں تو ہمارے جذبات، فکر، کردار اور نفس سے ہر وقت برائی کی گرد جھڑتی رہتی ہے اور انسان میں نور کی چمک پیدا ہوتی رہتی ہے۔ اس علم سے انسان میں جرات پاکیزگی ہمت حوصلہ اور سرفرازی پیدا ہوتی ہے اور وہ گناہ سے دور رہتا ہے۔ گناہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ گناہ عذاب کا راستہ بناتا ہے۔ گناہ کو نہ دیکھو کہ وہ کتنا چھوٹا ہے بلکہ اس اللہ کی بڑائی کو دیکھو جس کی نافرمانی کی جار ہی ہے۔ (سیدناابوبکر ؓ سچ ہے کہ گناہ آکاس بیل کی طرح چپکے چپکے انسانی شعور کو بہت جلد اپنی لپیٹ میں جکڑ لیتا ہے۔ اس لیے کبھی بھی کسی غلط کام کو چھوٹا سمجھ کر ہرگز نہ کرو۔ کیونکہ اچھا انسان برا کام کرنے سے برا لگنے لگتا ہے۔ بلکہ یوں سمجھ لیجئے کہ سفید چادر پر چھوٹا سا دھبہ بھی نمایاں دیکھائی دیتا ہے۔ جبکہ گندی چادر پر چھوٹا دھبہ اتنا نمایاں نہیں ہوتا۔ دعا ہے : اے ہمارے رب ! جب تو ہمیں ہدایت کرچکا تو ہمارے دلوں کو نہ پھیر اور اپنے ہاں سے ہمیں رحمت عطا فرما بیشک تو بہت زیادہ دینے والا ہے۔ (آل عمران : 8)
Top