Tafheem-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 227
اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ انْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا١ؕ وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۠   ۧ
اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : اچھے وَذَكَرُوا اللّٰهَ : اور اللہ کو یاد کیا كَثِيْرًا : بکثرت وَّانْتَصَرُوْا : اور انہوں نے بدلہ لیا مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا ظُلِمُوْا : کہ ان پر ظلم ہوا وَسَيَعْلَمُ : اور عنقریب جان لیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے ظَلَمُوْٓا : ظلم کیا اَيَّ : کس مُنْقَلَبٍ : لوٹنے کی جگہ (کروٹ) يَّنْقَلِبُوْنَ : وہ الٹتے ہیں (انہیں لوٹ کر جانا ہے
بجز اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا، اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا 145۔۔۔۔ اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ 146
سورة الشُّعَرَآء 145 یہاں شعراء کی اس عام مذمت سے جو اوپر بیان ہوئی، ان شعراء کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو چار خصوصیات کے حامل ہوں اول یہ کہ وہ مومن ہوں، یعنی اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتابوں کو سچے دل سے مانتے ہوں اور آخرت پر یقین رکھتے ہوں۔ دوسرے یہ کہ اپنی عملی زندگی میں صالح ہوں، بد کار اور فاسق و فاجر نہ ہوں، اخلاق کی بندشوں سے آزاد ہو کر جھک نہ مارتے پھریں۔ تیسرے یہ کہ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہوں، اپنے عام حالات اور اوقات میں بھی، اور اپنے کلام میں بھی۔ یہ نہ ہو کہ شخصی زندگی تو زہد وتقویٰ سے آراستہ ہے مگر کلام سراسر رندی و ہوسنا کی سے لبریز۔ اور یہ بھی نہ ہو کہ شعر میں تو بڑی حکمت و معرفت کی باتیں بگھاری جا رہی ہیں مگر ذاتی زندگی کو دیکھیے تو یاد خدا کے سارے آثار سے خالی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں حالتیں یکساں مذموم ہیں۔ ایک پسندیدہ شاعر وہی ہے جس کی نجی زندگی بھی خدا کی یاد سے معمور ہو اور شاعرانہ قابلیتیں بھی اس راہ میں وقف رہیں جو خدا سے غافل لوگوں کی نہیں بلکہ خدا شناس، خدا دوست اور خدا پرست لوگوں کی راہ ہے۔ چوتھی صفت ان مستثنیٰ قسم کے شاعروں کی یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ شخصی اغراض کے لیے تو کسی کی ہجو نہ کریں، نہ ذاتی یا نسلی و قومی عصبیتوں کی خاطر انتقام کی آگ بھڑکائیں، مگر جب ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کے لیے ضرورت پیش آئے تو پھر زبان سے وہی کام لیں جو ایک مجاہد تیر و شمشیر سے لیتا ہے۔ ہر وقت گھگھیاتے ہی رہنا اور ظلم کے مقابلے میں نیاز مندانہ معروضات ہی پیش کرتے رہنا مومنوں کا شیوہ نہیں ہے۔ اسی کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ کفار و مشرکین کے شاعر اسلام اور نبی ﷺ کے خلاف الزامات کا جو طوفان اٹھاتے اور نفرت و عداوت کا جو زہر پھیلاتے تھے اس کا جواب دینے کے لیے حضور ﷺ خود شعرائے اسلام کی ہمت افزائی فرمایا کرتے تھے۔ چناچہ کعب بن مالک ؓ سے آپ نے فرمایا اھجھم فوالذی نفسی بیدہ لہوا شد علیہم من النبل، " ان کی ہجو کہو، کیونکہ اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تمہارا شعر ان کے حق میں تیر سے زیادہ تیز ہے "۔ حضرت حسان بن ثابت ؓ سے فرمایا اھجھم و جبریل معک، اور قل و روح القدس معک، " ان کی خبر لو اور جبریل تمہارے ساتھ ہے "۔ " کہو اور روح القدس تمہارے ساتھ ہے " آپ کا ارشاد تھا کہ ان المؤمن یجاھد بسیفہ و لسانہٖ۔ " مومن تلوار سے بھی لڑتا ہے اور زبان سے بھی "۔ سورة الشُّعَرَآء 146 ظلم کرنے والوں سے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جو حق کو نیچا دکھانے کے لیے سراسر ہٹ دھرمی کی راہ سے نبی ﷺ پر شاعری اور کہانت اور ساحری اور جنون کی تہمتیں لگاتے پھرتے تھے تاکہ ناواقف لوگ آپ کی دعوت سے بد گمان ہوں اور آپ کی تعلیم کی طرف توجہ نہ دیں۔
Top