Ahkam-ul-Quran - Yaseen : 68
وَ مَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِ١ؕ اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ
وَمَنْ : اور جس نُّعَمِّرْهُ : ہم عمر دراز کردیتے ہیں نُنَكِّسْهُ : اوندھا کردیتے ہیں فِي الْخَلْقِ ۭ : خلقت (پیدائش) میں اَفَلَا يَعْقِلُوْنَ : تو کیا وہ سمجھتے نہیں ؟
اور جس کو ہم بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں تو کیا یہ سمجھتے ہیں ؟
جوانی کے بعد بڑھاپا لازمی ہے قول باری ہے (ومن نعمرہ ننکسہ فی الخلق۔ اور ہم جس کی عمر (بہت زیادہ) کردیتے ہیں اسے اس کی خلقت میں الٹا کردیتے ہیں) قتادہ کا قول ہے۔ ہم اسے ہرم یعنی بہت بڑھاپے کی منزل پر پہنچا دیتے ہیں جس کی بنا پر اس کی حالت قویٰ کی کمزوری اور بیخبر ی کے لحاظ سے بچے کی حالت کے مشابہ ہوجاتی ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ ہم اسے قوت وطاقت دینے کے بعد کمزوری اور ضعف سے، نیز جسم کی فربہی کے بعد لاغری سے اور تروتازگی ونشاط کے بعد خشکی اور سستی سے دو چار کردیتے ہیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس کی نظیر یہ قول باری ہے (ومنکم من یرد الی ارذلی العمر اور تم میں سے وہ بھی ہیں جنہیں نکمی عمر تک پہنچا دیا جاتا ہے) انتہائی بڑھاپے کی عمر کو نکمی عمر اس لئے کہا گیا ہے کہ اس میں کمی کے بعد اضافے اور لاعلمی کے بعد علم کی طرف رجوع کرنے کی کوئی توقع اور آس نہیں ہوتی۔ جس طرح بچے کے بارے میں یہ توقعات ہوتی ہیں کہ ابھی اگرچہ وہ کمزور ہے لیکن اس کے جسم میں قوت آجائے گی اور ابھی اگرچہ اسے کچھ خبر نہیں لیکن آگے چل کر باخبر ہوجائے گا۔ اس نظریہ قول جاری ہے (ثم جعل من بعد قوۃ ضعفا وشیبۃ ۔ پھر اللہ نے قوت وطاقت دینے کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا) ۔
Top