Tafseer-e-Haqqani - Yaseen : 68
وَ مَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِ١ؕ اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ
وَمَنْ : اور جس نُّعَمِّرْهُ : ہم عمر دراز کردیتے ہیں نُنَكِّسْهُ : اوندھا کردیتے ہیں فِي الْخَلْقِ ۭ : خلقت (پیدائش) میں اَفَلَا يَعْقِلُوْنَ : تو کیا وہ سمجھتے نہیں ؟
اور جس کی ہم بڑی عمر کرتے ہیں تو اس کو دنیا میں الٹا کردیتے ہیں، پھر وہ کیوں نہیں سمجھتے
ومن نعمرہ ننکسہ فی الخلق کہ بڑی عمر سے کیا زیادہ سمجھ آجاوے گی، سمجھنے کے لیے تو عمر کا ایک معتد بہ حصہ کافی ہے، جیسا کہ پہلے فرمایا تھا۔ اولم نعمرکم مایتذکر فیہ من تذکر اور زیادہ عمر ہونے کی آرزو بیکار ہے، کس لیے کہ جب عمر زیادہ ہوجاتی ہے تو اعضاء انسانی اور قوائے مدرکہ بھی ضعیف ہوجاتے ہیں۔ زجاج کہتے ہیں اس کے یہ معنی کہ جس کی ہم عمر زیادہ کرتے ہیں تو اس کو پیدائشی باتوں میں الٹا کردیتے ہیں۔ قوت کے بعد ضعف جوانی کے بعد بڑھاپا آجاتا ہے۔ سیدھا قد ٹیڑھا ہوجاتا ہے۔ افلایعقلون اس پر بھی وہ عقل نہیں کرتے، اس جملہ میں ایک اور بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ دنیا میں ممکنات کے جس قدر کمالات ہیں، طاقت و قوت حسن و جمال ‘ علم و دانش حتٰی کہ ہستی سب ہماری دی ہوئی ہے اور اس دنیا میں چند روز کے لیے ہے، آخر فنا ہے۔ چند روز بہار ہے جس پر تم اس قدر پھولے ہوئے ہو اور محسن اصلی اور منزل اصلی کو بھولے ہوئے ہو، اپنے ہی آپ کو دیکھو عمر زیادہ ہونے میں وہ جوانی کہاں رہتی ہے، کہاں گئی وہ قوت حافظہ اور کس جگہ چلی گئی وہ قوت ہاضمہ کہاں ہے وہ قوت باصرہ و سامعہ کہاں ہے وہ رنگ و روغن، حسن و جمال قد جو سرو رواں تھا، جھک گیا، سب چیزیں تم سے لی جاتی ہیں، ایک یہ ہستی بھی چھین لی جاوے گی، اس پر بھی تم عقل نہیں کرتے۔
Top