Ruh-ul-Quran - Yaseen : 68
وَ مَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِ١ؕ اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ
وَمَنْ : اور جس نُّعَمِّرْهُ : ہم عمر دراز کردیتے ہیں نُنَكِّسْهُ : اوندھا کردیتے ہیں فِي الْخَلْقِ ۭ : خلقت (پیدائش) میں اَفَلَا يَعْقِلُوْنَ : تو کیا وہ سمجھتے نہیں ؟
اور جس شخص کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں تو ہم پیچھے لوٹا دیتے ہیں اس کو اس کی خلقت میں، تو کیا وہ سمجھتے نہیں
وَمَنْ نُّعَمِّرْہُ نُنَـکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ ط اَفَلاَ یَعْقِلُوْنَ ۔ (یٰسٓ: 68) (اور جس شخص کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں تو ہم پیچھے لوٹا دیتے ہیں اس کو اس کی خلقت میں، تو کیا وہ سمجھتے نہیں۔ ) گزشتہ دھمکی پر انسانی زندگی کے احوال سے دلیل گزشتہ دو آیتوں میں مخالفین کو دھمکی دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ جن قوتوں کو وہ راہ راست پر صرف کرنے کی بجائے خواہشاتِ نفس کی تکمیل اور اسلامی دعوت کو ناکام کرنے میں صرف کررہے ہیں، اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہم ان کی بینائی سلب کرلیتے اور انہیں ہر طرح سے مسخ کرکے عضومعطل بنا کے رکھ دیتے، تاکہ لوگ انہیں دیکھ کر عبرت حاصل کریں۔ لیکن ان لوگوں کی حماقتوں کا کیا کہنا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں اور قوتوں کو اپنی ملک سمجھتے اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کی دسترس سے باہر سمجھتے ہیں۔ ان کا گمان یہ ہے کہ ہم جو چاہیں کریں ہمیں کوئی پوچھنے اور پکڑنے والا نہیں۔ چناچہ ان کی اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے خود انسان کی اپنی زندگی کے احوال و مشاہدات سے دلیل دی جارہی ہے کہ تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو کہ انسان کو گندے پانی کی ایک بوند سے پیدا کیا جاتا ہے۔ ماں کے پیٹ میں گزرنے والی احوال و کیفیات کو چھوڑو، وہ دنیا میں آنے کے بعد بھی ایک مضغہ گوشت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ حواس سے بےبہرہ، عقل سے محروم، ہر طرح کے احساس سے عاری۔ اسے یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ ماں باپ جو میرے وجود کا باعث ہیں وہ کون ہیں، کسی کی پہچان نہیں ہوتی۔ پھر قدرت اسے بتدریج طاقت اور توانائی بخشتی ہے۔ حتیٰ کہ جوانی کی حدود میں داخل ہونے کے بعد وہ قوت اور توانائی کا پیکر بن جاتا ہے۔ پھر جیسے جیسے ان قوتوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عہدہ و منصب کی ہیبتیں بھی شامل ہوجاتی ہیں تو وہ بالکل بھول جاتا ہے کہ دنیا میں میری آمد ایک بےبس بچے کی طرح ہوئی تھی اور آج جبکہ اپنے آپ کو قوتوں اور توانائیوں کا سرچشمہ دیکھ رہا ہوں یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی عطا اور اس کی دین ہے۔ چناچہ وہ اسی بےخودی اور مستی میں اپنے آپ کو بندہ سمجھنے کی بجائے فرعون اور نمرود سمجھنے لگتا ہے اور اسے یقین ہوتا ہے کہ میری اس حالت پر کبھی زوال نہیں آئے گا۔ اور میری یہ فرمانروائی ہمیشہ باقی رہے گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ایک تدریج کے ساتھ اپنا کام کرتی ہے کہ توانائی کی جگہ ناتوانی اترنے لگتی ہے۔ بلند ہمتی اور اولوالعزمی کی بجائے گوشہ عافیت میں بیٹھ رہنا بھلا معلوم ہونے لگتا ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے جب ہوش و حواس جواب دینے لگتے ہیں اور تاب و تواں پر مردنی طاری ہونے لگتی ہے۔ قرآن کریم نے اس حالت کی منظرکشی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفًاوَّشَیْبَۃً ۔ (الروم : 54) ” اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ناتوانی سے، پھر ناتوانی کے بعد اس نے توانائی بخشی پھر توانائی کے بعد ضعف اور بڑھاپا طاری کردیا۔ “ کتنے لوگ ہیں جن پر جسمانی ضعف و ناتوانی کے ساتھ ساتھ ہوش و حواس اور شعور و خرد میں بھی ضعف کا شکار ہوتے ہیں، وہ شخص جو کل تک دانشور کہلاتا تھا اور لوگ اس کے فکری سرمائے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے تھے وہ جب اس ارذل العمر کو پہنچتا ہے تو اس کی دانشوری جواب دے جاتی ہے اور وہ اپنی بعض حرکتوں میں بالکل بچوں کی سطح پر اتر جاتا ہے۔ اسے دیکھ کر کوئی اندازہ بھی نہیں کرسکتا کہ یہ شخص بھی کبھی فکر و دانش کی مملکت کا تاجدار رہا ہو۔ قرآن کریم نے اس کی تصویر کھینچتے ہوئے فرمایا : وَمِنْکُمْ مَّنْ یُرَدُّ اِلٰی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْ لاَ یَعْلَمَ مِّنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا۔ (النحل : 70) ” اور تم میں بعض وہ بھی ہوتے ہیں جو ارذل العمر کو پہنچائے جاتے ہیں یہاں تک وہ جاننے کے بعد کچھ نہیں جانتے۔ “ پیشِ نظر آیت کریمہ میں اسی صورتحال سے استدلال کیا گیا ہے کہ جس پروردگار کی قدرت کا عالم یہ ہے کہ وہ بےبس بچے کو وقت کے ساتھ ساتھ قوت اور طاقت کا سرچشمہ بنا دیتا ہے اور پھر اسی جوانِ رعنا کو بتدریج بڑھاپے میں مبتلا کرکے فکری افلاس اور جسمانی ناتوانی کی علامت بنا دیتا ہے۔ کیا اس کے لیے یہ بات مشکل ہے کہ تم اپنی جس قوت وہیبت پر ناز کررہے ہو اور اپنے جن حواس کو اپنی ہیبت کا ذریعہ سمجھتے ہو وہ ان سب کو سلب کرلے کہ تم نہ کوئی چیز دیکھ سکو، نہ سن سکو اور نہ کہیں اپنی جگہ سے حرکت کرسکو۔ یہ وہ کیفیت ہے جو تم بڑھاپے تک پہنچنے والے لوگوں میں بالعموم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو۔ یہ کس قدر سامنے کی بات ہے لیکن افسوس ہے کہ یہ سمجھنے سوچنے سے محروم ہوگئے ہیں۔
Top