Ashraf-ul-Hawashi - Yaseen : 68
وَ مَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِ١ؕ اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ
وَمَنْ : اور جس نُّعَمِّرْهُ : ہم عمر دراز کردیتے ہیں نُنَكِّسْهُ : اوندھا کردیتے ہیں فِي الْخَلْقِ ۭ : خلقت (پیدائش) میں اَفَلَا يَعْقِلُوْنَ : تو کیا وہ سمجھتے نہیں ؟
اور جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کو ہم الٹا (اور اوندھا) کردیتے ہیں اس کی خلقت (و پیدائش) میں تو کیا یہ لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ؟
68 انسانی زندگی کے احوال میں غور و فکر کی دعوت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ہم جس کو لمبی عمر دیتے ہیں اس کو الٹا کردیتے ہیں اس کی خلقت میں "۔ سو ایسے میں یہ اپنی بھرپور قوتوں کے بعد کمزور ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ نظر کمزور ہوتے ہوتے بعض اوقات بالکل ختم ہوجاتی ہے۔ قوت سماعت جواب دے جاتی ہے۔ چلنے پھرنے اور سننے سمجھنے سے یہ معذور ہوجاتا ہے۔ پیشاب پاخانے تک میں یہ دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ کوئی نہیں جو اس کو اس زوال و انحطاط سے بچا سکے اور اس کے اس ضعف و اضمحلال کو روک سکے۔ سو معلوم ہوا کہ یہ قوتیں جن پر آج انسان ناز کرتا اور اکڑتا ہے نہ اس کی اپنی ذاتی اور اس کے اپنے اختیار میں ہیں اور نہ ہی یہ دائمی اور ہمیشہ کے لئے ہیں۔ بلکہ یہ سب کسی کی عطا فرمودہ اور فانی و عارضی ہیں۔ لہذا جہاں تک ہو سکے تم ان کو نیکی اور خیر میں صرف کرو تاکہ یہ تمہارے لئے ابدی اور دائمی نعمتوں کا ذریعہ بن سکیں اور ہمیشہ اور دل و جان سے شکر بجا لاؤ اس وَہَّاب مُطْلَق جَلَّ وَعَلا کا جس نے یہ سب کچھ تمہیں بخشا اور عطا فرمایا ہے اے لوگو اور بغیر کسی قیمت و مول کے اور بغیر تمہاری طرف سے کسی اپیل و درخوست کے از خود اور محض اپنے کرم و احسان سے عطا فرمایا ہے۔ سو کس قدر ظالم اور بےانصاف ہے وہ انسان جو اس سب کے باوجود اس واہب مطلق ۔ جل و علاشانہ ۔ سے منہ موڑے اور اس کے ساتھ کفر و انکار کا معاملہ کرے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی سے انسان کو توجہ دلائی گئی ہے اور اس کو غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ ذرا آنکھ کھول کر دیکھے کہ کس طرح وہ اپنی قوتوں کے بام عروج کو پہنچ کر پھر رفتہ رفتہ ایسی کمزوری اور بےبسی کی طرف لوٹنے لگتا ہے کہ وہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی کچھ نہیں جان رہا ہوتا۔ جیسا کہ سورة نحل کی آیت نمبر 7 میں اس کی تصریح فرمائی گئی اور اس کی اس عاجزی اور بےبسی کی تصویر سورة روم کی آیت نمبر 54 میں پیش فرمائی گئی۔ سو انسانی زندگی کے ان مختلف احوال و مراحل میں غور و فکر سے کام لینے والوں کے لیے بڑے درسہائے عبرت و بصیرت ہیں۔ اگر انسان اس بارے صحیح طور پر سوچے اور درست زاویے سے غور و فکر کرے تو اس کے دل و دماغ کی دنیا حق و ہدایت کے نور مبین سے منور ہوجائے { وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ } ۔ ( الذاریات : 31) ۔ مگر غافل دنیا اس سے بےفکر اور لا پروا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top