Urwatul-Wusqaa - Yaseen : 68
وَ مَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِ١ؕ اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ
وَمَنْ : اور جس نُّعَمِّرْهُ : ہم عمر دراز کردیتے ہیں نُنَكِّسْهُ : اوندھا کردیتے ہیں فِي الْخَلْقِ ۭ : خلقت (پیدائش) میں اَفَلَا يَعْقِلُوْنَ : تو کیا وہ سمجھتے نہیں ؟
اور جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں تو اس کی طبعی طاقتوں کو کم کرتے چلے جاتے ہیں (پھر وہ بچپنے کی طرح کمزور ہوجاتا ہے) پھر بھی وہ نہیں سمجھتے
ایسے بھی ہیں جن کو اتنی لمبی عمر دے دی گئی کہ اب گناہ ان کو چھوڑ گئے ہیں : 68۔ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے زمانہ کے بہت بڑے رسہ گیر تھے ‘ پہلوان تھے ‘ اٹھارہ ہاتھ چھلانگ لگاتے تھے لیکن آج ان کی طویل عمری نے ان کو ساری قوتوں سے ناکارہ کر کے رکھ دیا ہے اور جو وہ کیا کرتے تھے اس کی داستان گوئی کے قابل بھی نہیں رہے آنکھیں دیکھنے سے اور کان سننے سے ‘ پاؤں چلنے سے جواب دے چکے ہیں اور منہ ان کے اس طرح سی دیئے گئے ہیں کہ طلب و احتیاج کے لیے بھی وہ نہیں کھلتے کیا انکی اس حالت کو دیکھ کر بھی ان کے دیکھنے والوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ جو انسان اپنے قوی پر بھی قابو نہیں رکھ سکتا اس کی حقیقت ہی آخر کیا ہے ؟ پھر اس کا اترانا اور اکڑنا کیا ہوا ؟ معلوم رہے کہ پیچھے جزا وسزا کا ذکر چلا آرہا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قانون کی وضاحت فرما دی کہ جب کسی کو اتنی لمبی عمر ملتی ہے تو آخر اس کے اعضا اس کو جواب دے دیتے ہیں بعینہ یہ صورت واقع ہوجاتی ہے کہ جب ہم کسی قوم کو زیادہ وقت دے دیتے ہیں تو اس کا مزاج اس قدر فاسد ہوجاتا ہے کہ اس کے اعضاء کمزور ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور انجام کار اس قوم کو اس صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے قوموں کا یہ عروج وزوال چلتا آیا ہے ‘ چل رہا ہے اور چلتا رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کو یہ قانون چلائے رکھنا ہے لیکن لوگ اکثر قرآن کریم کا مطالعہ اس بات کو مدنظر رکھ کر نہیں کرتے ، پیچھے آپ پڑھ چکے ہیں کہ زیر نظر سورت میں بھی بعض قوموں کے تکذیب کرنے کا ذکر موجود ہے تو اس کے پیش نظر اللہ نے اپنا قانون بھی بتا دیا ہے کہ جو قوم دنیا میں لمبی عمر پاتی ہے اور ترقی کرتی ہے آخر اس پر قانون قدرت کے مطابق وہ زمانہ آتا ہے کہ قوت کے بجائے ضعف پیدا ہو کر زوال کی حالت نمودار ہوجاتی ہے اور اس طرح یہ توجہ دلائی ہے کہ قوم کی حالت کو انسان کی حالت پر قیاس کرلو یا گزشتہ قوموں کے حالات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ قومیں اس دنیا میں بڑا بڑا اقبال حاصل کرکے اور ایک لمبے زمانہ تک عروج پاکر آخر کار مٹ گئیں تو پھر آخر قرآن کریم کی مخالفت کرنے والے کہاں باقی رہ سکتے ہیں اور اگر اس پر استدلال کرکے یہ کہا جائے کہ پھر اسلام پر بھی زوال آسکتا تھا تو یہ صحیح نہیں ہوگا کیونکہ اسلام کسی ایک قوم کی میراث نہیں ہے بلکہ یہ ساری قوموں کو ذم کرلینے والا دین ہے اور اس کی وضاحت ہم عروۃ الوثقی جلد سوم سورة مائدہ کی آیت 69 ‘ جلد ششم سورة الحج کی آیت 17 میں کرچکے ہیں وہاں سے ملاحظہ کرلیں ۔ (نکس) کی اصل ن ک س ہے سرنگوں یا سر جھکانے والے کو کہتے ہیں (نکس) سست اور کمزور آدمی کو کہا جاتا ہے (ننکسہ فی الخلق) ضعف پیری کے باعث جھک جانے والے لوگ جو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک بھی مشکل ہی سے پہنچ سکتے ہیں یا بالکل نہیں پہنچ سکتے بلکہ ایک ہی جگہ پر پڑے رہنے والے ہوتے ہیں مراد بوڑھے اور کمزور لوگوں ہی سے ہے جو اچھے بھلے طاقت ور رہنے کے باوجود اب ناکارہ ہوچکے ہیں اور یہ ناکارہ ہونا ان مشیت ایزدی ہی کے مطابق ہے ۔
Top