Anwar-ul-Bayan - At-Tahrim : 9
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جَاهِدِ الْكُفَّارَ : جہاد کیجئے کافروں سے وَالْمُنٰفِقِيْنَ : اور منافقوں سے وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ : اور سختی کیجئے ان پر وَمَاْوٰىهُمْ : اور ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم ہے وَبِئْسَ : اور بدترین الْمَصِيْرُ : ٹھکانہ ہے
اے نبی ! جہاد کیجئے کافروں سے اور منافقوں سے، اور ان پر سختی کیجئے اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے۔
کافروں اور منافقوں سے جہاد کرنے کا حکم : چوتھی آیت میں رسول اللہ ﷺ کو خطاب فرمایا کہ اے نبی آپ کافروں سے اور منافقوں سے جہاد کریں اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آئیں اور یہ بھی فرمایا کہ ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔ علامہ قرطبی (رح) لکھتے ہیں کہ اس آیت میں کافروں سے جہاد بالسیف کا اور منافقوں پر حجت قائم کرنے کا حکم فرمایا ہے انہیں یہ بتانا کہ آخرت میں تمہاری بدحالی ہوگی اور تمہارے ساتھ نور نہ ہوگا اور مومنین کے ساتھ پل صراط پر نہ گزر سکو گے یہ سب ان کے ساتھ جہاد کرنے اور سختی کا معاملہ کرنے کو شامل ہے پھر حضرت حسن سے نقل کیا ہے کہ سختی کا معاملہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان پر حدود قائم كیجئے کیونکہ وہ ایسے کام کرتے رہتے تھے جس کی وجہ سے ان پر حد جاری کی جاتی تھی۔ صاحب روح المعانی نے بھی حضرت حسن (رح) سے یہ بات نقل کی ہے۔ ان حضرات نے جو کچھ فرمایا وہ بھی ٹھیک ہے، احقر کے خیال میں ﴿ وَ اغْلُظْ عَلَيْهِمْ﴾ کا مصداق یہ بھی ہے کہ منافقوں کی حرکتیں ایک عرصہ تک برداشت کرنے کے بعد انہیں ذلت کے ساتھ نام لے لے کر پکڑ پکڑ کر مسجد نبوی سے نکال دیا گیا تھا۔ كما ذکرناہ فی تفسیر سورة البقرة۔
Top