Kashf-ur-Rahman - At-Tahrim : 9
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جَاهِدِ الْكُفَّارَ : جہاد کیجئے کافروں سے وَالْمُنٰفِقِيْنَ : اور منافقوں سے وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ : اور سختی کیجئے ان پر وَمَاْوٰىهُمْ : اور ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم ہے وَبِئْسَ : اور بدترین الْمَصِيْرُ : ٹھکانہ ہے
اے نبی کفار کے اور منافقین کے ساتھ جہاد کیجئے اور ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیجئے ان کافروں کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ دوزخ بہت بری جگہ ہے۔
(9) اے نبی کفار کے اور منافقین کے ساتھ جہاد کیجئے اور ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیجئے ان سب کافروں اور منافقوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ جہنم بہت بری جگہ ہے۔ یعنی کافروں کے ساتھ جہاد تلوار سے اور منافقوں کے ساتھ جہاد زبان سے دنیا میں یہ اس کے مستحق ہیں اور آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو ٹھکانے اور پھرجانے کی بہت بری جگہ ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت کا خلق یہاں تک ہے کہ اللہ صاحب اوروں کو فرماتا ہے تحمل کرو ان کو فرماتا ہے سختی کرنا۔ نبی کریم ﷺ کی عام شفقت اور رحمت مشہور ہے اس لئے کافروں کے خلاف سخت گیری کا حکم دیا یہ جہاد فرض ہونے کے بعد کی باتیں ہیں حضرت موسیٰ کے مزاج چونکہ سختی اور درشتی زیادہ تھی اس لئے ان کو فرعون کے مقابلے میں تحمل اور نرمی کا حکم دیا شاید شاہ صاحب (رح) کا اشارہ اسی طرح ہو آگے اللہ تعالیٰ چن عورتوں کا بیان فرماتا ہے۔ چونکہ اوپر قوا انفسکم والھیکم نارا، فرمایا تھا اس لئے بعض واقعات بیان فرمائے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ اصلاح حال کی ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیے نیک لوگوں کا تلبس بھی جب ہی مفید ہوسکتا ہے جب خودبھی صلاحیت موجود ہو جس طرح اگر عورت میں خود صلاحیت موجود ہو تو تلبس بالفساق بلکہ کفار کا تلبس بھی ضرررساں نہیں۔ جیسا حضرت آسیہ ؓ زوجہ فرعون کا واقعہ بہرحال ارشاد ہوتا ہے۔
Top