Asrar-ut-Tanzil - Al-Kahf : 13
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّ١ؕ اِنَّهُمْ فِتْیَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْنٰهُمْ هُدًىۗۖ
نَحْنُ : ہم نَقُصُّ : بیان کرتے ہیں عَلَيْكَ : تجھ سے نَبَاَهُمْ : ان کا حال بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک اِنَّهُمْ : بیشک وہ فِتْيَةٌ : چند نوجوان اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے بِرَبِّهِمْ : اپنے رب پر وَزِدْنٰهُمْ هُدًى : اور ہم نے اور زیادہ دی انہیں۔ ہدایت
ہم ان کا واقعہ آپ سے ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں۔ یقینا وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں اور ترقی کردی تھی
(رکوع نمبر 2) اسرارومعارف تو سنئے ہم نے آپ کو ان واقعہ کا ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے تو بہت بےسروپا باتین اس میں شامل کر رکھی ہوں گی ، لہذا ارشاد ہوا کہ درست واقعات یہاں کتاب میں بیان کئے جاتے ہیں کہ وہ کچھ نوجوان تھے جو اللہ جل جلالہ پر ایمان لائے ، اپنے پروردگار کی عظمت کو خلوص دل سے تسلیم کرلیا تو ہم نے ان کے لیے راہ ہدایت کی سوجھ بوجھ بڑھا دی اور انہیں نیکی اور بدی میں فرق کا احساس شدت سے ہوگیا ایسا کہ جو بدی کو چھوڑنے اور نیکی کو اپنانے پر مجبور کر دے ۔ (ایمان کی خصوصیت) اس جگہ ایمان کی خصوصیت ارشاد ہوئی ہے کہ اگر خلوص نصیب ہو تو ایمان کے باعث اللہ جل جلالہ کی طرف سے شعور بیدار ہوجاتا ہے نیکی اور برائی کا نہ صرف فرق سمجھ آنے لگتا ہے بلکہ آدمی بڑی سے بڑی قربانی دے کر نیکی اپنانے کی کوشش کرتا ہے اور برائی سے بچنے کی بھرپور سعی کرتا ہے ، لہذا دعوی ایمان کے ساتھ مسلسل برائی کرنا غالبا خلوص میں کمی کی علامت ہے ، ورنہ جذبہ خلوص پہ اس کا قدرتی پھل ضرور لگتا ہے اور خلوص قلب کا خاصہ ہے اسی لیے گروہ صوفیا ذکر قلبی پہ بہت زور دیتے ہیں نیز ذاکرین کے لیے بھی یہی معیار ہے کہ ذکر قلبی کی بدولت نیکی طبعا مرغوب ہونے لگے اور بدی سے نفرت پیدا ہوجائے ۔ (خلوص قلبی پہ دوسرا انعام) ہم نے ان کے دلوں سے ایک خاص تعلق کے ذریعے ان کو بہت مضبوط کردیا ، یہ خلوص قلبی پہ دوسرا انعام مرتب ہوتا ہے کہہ ہدایت سے مراد نیکی کی پہچان ہے تو قلب کے رابطے اور مضبوطی سے مراد دل کی وہ جرات رندانہ ہے کہ سب کچھ قربان کر کے بھی اللہ جل جلالہ کی اطاعت ہی کو اختیار کرنے کا حوصلہ پالے ۔ (رابطہ) راہ سلوک میں لطائف کی درستی اور قلب کی روشنی کے بعد شیخ توجہ اور ہمت سے طالب کے قلبی انوارات کا رشتہ عرش عظیم سے استوار کرتا ہے اور اسے یہ حال نصیب ہوتا ہے کہ اللہ جل جلالہ پر اس کے دل سے جو نور اٹھتا ہے وہ عرش عظیم سے جا کر لگے اس کو رابطہ کہ جاتا ہے جب یہ رابطہ مضبوط ہوجائے تو روح کے لیے زینہ کا کام دیتا ہے اور وح اس پر سفر کرکے عالم بالا میں داخل ہو سکتی ہے جس کی منازل میں سے پہلی منزل احدیت کے نام سے موسوم ہے ، غالبا اس کا تذکرہ پہلے گذر چکا ، دنیا کے اعتبار سے اس قلبی حال کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کا حامل جان دے کر بھی اللہ جل جلالہ کی اطاعت ہی اختیار کرتا ہے ۔ چناچہ جب ان جوانوں کے قلوب کو یہ ربط نصیب ہوا تو انہوں نے اعلان کردیا کہ ہمارا رب تو وہی ہے جو زمین اور آسمانوں کا پروردگار ہے ہم اس کی ذات کے سوا کسی کو معبود قبول نہیں کرتے کہ یہ شان صرف اس کی ہے ساری کائنات کا اکیلا پروردگار اکیلا ہی عبادت کا مستحق بھی ہے ، یہ محض ہمارے کہنے کی بات نہیں بلکہ حق یہی ہے ، خدانخواستہ اگر ہم بھی اس کے خلاف کہہ دیں جیسے باقی کی ساری قوم کہہ رہی ہے تو اس کی شان میں کوئی فرق نہ آئے گا الٹا ہماری بات ہی خلاف عقل اور جاہلانہ ہوگی ۔ (نوجوانوں پہ زیادہ توجہ کی ضرورت) یہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ عادات کو بدلنا بھی نوجوانوں کے لیے آسان ہوتا ہے اور بوڑھوں کے لیے مشکل نیز کچھ کر گذرنے کا جذبہ جو جوانی میں ہوتا ہے بڑھاپے میں سرد پڑجاتا ہے لہذا انقلابی تبدیلی کے لیے نوجوان نسل پر بھرپور توجہ کی ضرورت ہے خود نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے والوں میں نوجوانوں کی کثرت تھی جو ابتدا سے اسلام میں آگے آئے ۔ رہی بات ہماری قوم کی مشرکانہ رسومات اور کافرانہ عقائد کی کہ انہوں نے اللہ جل جلالہ کی ذات کے علاوہ مختلف بتوں کی پوجا شروع کر رکھی ہے اور اس کے علاوہ ان کو معبود بنایا ہوا ہے تو اپنی بات پر کوئی دلیل کیوں نہیں لاتے جیسے اللہ جل جلالہ کی تخلیق اور بقائے عالم ہی اس کی عظمت پہ گواہی کے لیے کافی ہے ، ان کے معبودان باطلہ نے کیا تخلیق کیا اور کس کے پروردگار ہیں جبکہ وہ خود ایک ادنی درجے کی مخلوق یعنی مٹی ، گارا یا پتھر ہیں۔ (مشرکانہ رسومات اور بدعات دراصل ذات باری پر بہتان باندھنے کے برابر ہے) اور اس سے بڑھ کر کسی ظلم کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی اللہ جل جلالہ پر جھوٹ بولے کہ کسی بھی رسم کو ثواب بتانا یا ماننا جبکہ شرعا اس کا ثبوت نہ ہو تو وہ اللہ جل جلالہ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے کہ کسی کام کو ثواب یا پسندیدہ بتانا یہ خود اللہ جل جلالہ کا منصب ہے اور نبی اللہ جل جلالہ ہی کے حکم سے بتاتا ہے اپنی طرف سے رسومات اور بدعات ایجاد کرنے والا گویا اللہ جل جلالہ پر جھوٹ بولتا ہے اور بہتان لگاتا ہے جو اتنا بڑا جرم ہے کہ ایسے لوگوں سے مل کر رہنا بھی خطرے سے خالی نہیں کسی وقت بھی عذاب الہی آسکتا ہے ۔ الہذا انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جب ہم نے قوم کے معبودان باطلہ کو چھوڑا ان کی رسومات و خرافات سے الگ ہوئے تو اب ان کے ساتھ رہنا درست نہیں ، خواہ دنیا کی ساری نعمتیں چھوڑنا پڑیں ، ماحول دوست احباب ، رشتہ دار ، گھر بار ، آرام یہ سب قربان کیا جاسکتا ہے ، اور عالیشان مکانوں کی جگہ غار میں وقت بسر کرلو مگر ان سے الگ ہوجاؤ ۔ (جہاں اللہ جل جلالہ کی عبادت نہ ہو سکتی ہو وہ جگہ چھوڑ دینا یہ انبیاء کی سنت ہے) گویا قانون یہ ہے اور یہی تمام نبیوں کا طریقہ ہے کہ جس آبادی میں اللہ جل جلالہ کی عبادت نہ ہو سکتی ہو یا عقائد محفوظ نہ رہ سکتے ہوں اسے چھوڑ دیا جائے کہ اس سے ویرانے بہتر ہیں ، اس میں ان لوگوں کے لیے درس عبرت ہے جو رات دن گھر بار بیچ کر یورپ اور مغربی دنیا جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ چناچہ ان نوجوانوں نے ایک غار میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا کہ جب ہم اسباب دنیا کو اللہ جل جلالہ کے لیے چھوڑ دیں گے تو وہ ہمیں اپنی رحمت سے ڈھانپ لے گا اور اپنی قدرت کاملہ سے ہمارے آرام و سکون کا اہتمام کر دے گا ۔ (اصحاب کہف پر اللہ جل جلالہ کا انعام اور ان کی کرامات) چناچہ جب انہوں نے اس وجہ سے وہ اختیاری اسباب جو ان کے آرام کے تھے ترک کردیئے کہ وہ انہیں اللہ جل جلالہ کی راہ سے ہٹا نہ دیں تو اللہ جل جلالہ نے ان اسباب کو بھی ان کی خدمت پر لگا دیا جن پہ ان کا اختیار نہ تھا مثلا انہوں نے قیمتی مکان چھوڑے تو اللہ جل جلالہ نے کھلی چھت کے نیچے بھی سورج کی تمازت اور دھوپ کی گرمی کو ان سے روک دیا اور اے مخاطب تو دیکھے گا کہ ہر طلوع و غروب کے وقت سورج اپنا دامن ان سے بچاتا ہے اور اپنی کرنوں کو ان سے روک کر بکھیرتا ہے کہ انہوں دھوپ پریشان نہ کرسکے حالانکہ وہ غار کی ڈھکی ہوئی جگہ پر نہیں بلکہ کھلی ہوئی جگہ میں آرام کر رہے ہیں ۔ اکثر علماء نے غار کی سمت کا اندازہ لکھا ہے کہ اس کا رخ شمالا جنوبا ہو تو دھوپ نہ لگے بعض نے ریاضی کے قواعد سے طول بلد اور عرض بلد کی بحث سے ثابت کرنا چاہا ہے ، مگر حق یہ ہے کہ یہ خرق عادت ہے اور اسے ان کی کرامت کے طور پر قدرت کاملہ کی بہت بڑی نشانی کہہ کر بیان فرمایا ہے ۔ کہ ارشاد ہوتا ہے کہ یہ اس کی قدرت کاملہ کی بہت بڑی نشانی ہے کہ کچھ لوگ سرمیدان آرام کر رہے ہیں اور موسم اپنے اثرات کا دامن ان سے سمیٹ رہے ہیں نہ صرف یہ کہ دھوپ نے ان پر اثر نہ کیا بلکہ تمام موسموں کے تغیر وتبدل کا بہت بڑا مرکز بھی تو سورج ہے اور تین سونوسال ان کے وجودوں پر کسی موسم نے کوئی اثر نہ کیا نہ صرف وجود بلکہ لباس تک فرسودہ نہ ہوئے نہ ان پہ گرد پڑی اور نہ بارش نہ گرمی وسردی نے متاثر کیا اور نہ طوفانی ہواؤں نے چھیڑا کہ اللہ جل جلالہ نے ان اسباب کو جن پر ان کا اختیار نہ تھا ان کی حفاظت پر لگا دیا اور یہ اس کی قدرت کاملہ کی دلیل بھی ہے ۔ لہذا یاد رکھو کہ اللہ کو دل کی گہرائی سے ماننا ہی باعث کمال ہے کہ جو اللہ جل جلالہ سے تعلق قائم کرے اور اللہ جل جلالہ اس کو ہدایت دے وہی ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ جل جلالہ محروم کر دے یعنی اللہ کے لیے اس کے دل میں خلوص نہ ہو اور اللہ جل جلالہ اسے گمراہ کردے تو پھر نہ کوئی اسے ہمدرد نصیب ہوتا ہے اور نہ کوئی مرشد جو اسے راہ پر لے آئے گویا شیخ کا ملنا بھی عطائے باری ہے ۔
Top