Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 13
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّ١ؕ اِنَّهُمْ فِتْیَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْنٰهُمْ هُدًىۗۖ
نَحْنُ : ہم نَقُصُّ : بیان کرتے ہیں عَلَيْكَ : تجھ سے نَبَاَهُمْ : ان کا حال بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک اِنَّهُمْ : بیشک وہ فِتْيَةٌ : چند نوجوان اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے بِرَبِّهِمْ : اپنے رب پر وَزِدْنٰهُمْ هُدًى : اور ہم نے اور زیادہ دی انہیں۔ ہدایت
ہم سنا ویں تجھ کو ان کا حال تحقیقی، وہ کئی جوان ہیں کہ یقین لائے اپنے رب پر اور زیادہ دی ہم نے ان کو سوجھ
خلاصہ تفسیر
ہم ان کا واقعہ آپ سے ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں (اس میں اشارہ کردیا کہ اس کے خلاف جو کچھ دنیا میں مشہور ہے وہ درست نہیں) وہ لوگ (اصحاب کہف) چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر (اس زمانے کے دین عیسوی کے مطابق) ایمان لائے تھے، اور ہم نے ان کی ہدایت میں اور ترقی کردی (کہ صفات ایمان ثابت قدمی اور بلاؤں پر صبر دنیا سے اعراض، آخرت کی فکر وغیرہ بھی عطا کردیں، انہی صفات ایمان و ہدایت میں ایک بات یہ تھی کہ) ہم نے ان کے دل مضبوط کر دئیے جبکہ وہ پختہ ہو کر (آپس میں یا مخالف بادشاہ کے رو برو) کہنے لگے کہ ہمارا رب تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ہم تو اس کو چھوڑ کر کسی معبود کی عبادت نہ کریں گے (کیونکہ اگر خدا نخواستہ ہم نے ایسا کیا) تو اس صورت میں ہم نے یقینا بڑی بےجا بات کہی، اور یہ جو ہماری قوم ہے انہوں نے خدا کو چھوڑ کر اور معبود قرار دے رکھے ہیں، (کیونکہ ان کی قوم اور بادشاہ وقت سب بت پرست تھے، سو) یہ لوگ اپنے معبودوں (کے معبود ہونے) پر کوئی کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے (جیسا کہ موحدین توحید پر واضح اور یقینی دلیل رکھتے ہیں) تو اس سے زیادہ کون غضب ڈھانے والا ہوگا جو اللہ پر جھوٹی تہمت لگا دے (کہ اس کے کچھ ساجھی اور شریک بھی ہیں) اور پھر (آپس میں کہا کہ) جب تم ان لوگوں سے عقیدہ ہی میں الگ ہوگئے اور ان کے معبودوں (کی عبادت) سے بھی (الگ ہوگئے ہو) مگر اللہ سے (الگ نہیں ہوئے، بلکہ اسی کی وجہ سے سب کو چھوڑا ہے) تو اب (مصلحت یہ ہے کہ) تم (فلاں) غار میں (جو مشورے سے طے ہوا ہوگا) چل کر پناہ لو (تا کہ امن اور بےفکری کے ساتھ اللہ کی عبادت کرسکو) تم پر تمہارا رب اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے لئے تمہارے اس کام میں کامیابی کے سامان درست کر دے گا (اللہ تعالیٰ سے اسی امید اور توقع پر غار میں جانے کے وقت) انہوں نے سب سے پہلے یہ دعا کی کہ (آیت) رَبَّنَا اٰتِنَامن لدنک رحمۃ وھیء لنا من امرنا رشدا)

معارف و مسائل
اِنَّهُمْ فِتْيَةٌ، فتی کی جمع ہے، نوجوان کے معنی میں آتا ہے، علما تفسیر نے فرمایا کہ اس لفظ میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ اصلاح اعمال و اخلاق اور رشد و ہدایت کا زمانہ جوانی ہی کی عمر ہے، بڑھاپے میں پچھلے اعمال و اخلاق ایسے پختہ ہوجاتے ہیں کہ کتنا ہی اس کے خلاف حق واضح ہوجائے ان سے نکلنا مشکل ہوتا ہے، صحابہ کرام میں رسول اللہ ﷺ کی دعوت پر ایمان لانے والے بیشتر نوجوان ہی لوگ تھے (ابن کثیر، ابو حیان)
Top