Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 13
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّ١ؕ اِنَّهُمْ فِتْیَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْنٰهُمْ هُدًىۗۖ
نَحْنُ : ہم نَقُصُّ : بیان کرتے ہیں عَلَيْكَ : تجھ سے نَبَاَهُمْ : ان کا حال بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک اِنَّهُمْ : بیشک وہ فِتْيَةٌ : چند نوجوان اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے بِرَبِّهِمْ : اپنے رب پر وَزِدْنٰهُمْ هُدًى : اور ہم نے اور زیادہ دی انہیں۔ ہدایت
ہم بیان کرتے ہیں آپ کے اوپر حال ان (اصحاب کہف) کا حق کے ساتھ ، بیشک وہ چند نوجوان تھے جو ایمان لائے اپنے رب پر اور ہم نے زیادہ دی ان کو ہدایت ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کا اجمالی ذکر کیا کہ ہماری قدرت کی نشانیوں میں یہ کوئی واحد حیرت انگیز نشانی نہیں بلکہ کائنات میں اس قسم کی بیشمار نشانیاں بکھری پڑی ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ کی وحدانیت اور اس کی قدرت تامہ پر یقین آتا ہے ، فرمایا یہ چند نوجوان تھے جنہوں نے غار میں پناہ پکڑی اور اپنے رب سے دعا کی کہ اے پروردگار ! ہمیں اپنی جانب سے مہربانی عطا فرما اور ہمارے معاملے میں درستگی پیدا فرما دے اللہ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور ان کے کانوں پر تھپکی دے کر سال ہاسال تک سلائے رکھا ، پھر مدت مدید کے بعد انہیں نیند سے بیدار کیا تاکہ واضح ہوجائے کہ ان کے غار میں ٹھہرنے کی مدت کے بارے میں کون سا گروہ زیادہ یاد رکھتا ہے ۔ (چندایماندار نوجوان) اب آج کے درس سے اصحاب کہف کا واقعہ تفصیل کے بیان کیا جارہا ہے ارشاد ہوتا ہے ۔ (آیت) ” نحن نقص علیک نباھم بالحق “۔ ہم بیان کرتے ہیں آپ پر ان کا حال تحقیق کے ساتھ یعنی ہم صحیح صحیح واقعات کو بیان کرتے ہیں اور اس میں صرف وہی حصہ بیان ہوگا جو لوگوں کے لیے باعث عبرت اور مفید ہو ، عام قصے کہانیوں کی طرف تمام جزئیات کو بیان کرنا قرآن کریم کا موضوع نہیں ہے ، فرمایا (آیت) ” انھم فتیۃ “۔ بیشک وہ چند نوجوان تھے ، جو اپنے ظالم ، مشرک اور بت پرست حاکم سے تنگ آچکے تھے ، اس زمانے میں قیصر روم ڈسیئس کا تسلط شام تک تھا ، یہ شخص لوگوں سے زبردستی بت پرستی کراتا اور غیر اللہ کے نام کی قربانیاں کراتا جو اس کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ، اس پر تشدد کرتا عام مشہور یہی ہے کہ چند نوجوان بھی اسی ظالم بادشاہ کی سلطنت میں ملک شام میں رہتے تھے اور جس پہاڑ کی غار میں انہوں نے پناہ لی تھی ، اس کا نام قاسون تھا اور وہ بھی اسی علاقہ میں تھا ، اگرچہ بعض یہ واقعہ ایشیائے کوچک ، بعض اندلس اور بعض عقبہ کا بتاتے ہیں ، تاہم زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ شام کا علاقہ تھا ، یہ غار آج بھی موجود ہے جس کی زیارت کے لیے لوگ جاتے ہیں ۔ بہرحال یہ چند نوجوان تھے (آیت) ” امنوا بربھم “ ۔ جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے ، انہوں نے کفر ، شرک اور غیر اللہ کی نذر ونیاز دینے سے بیزاری کا اظہار کردیا تھا اور اس طرح صحیح دین کو اختیار کرلیا تھا ، یہ سب اچھی حیثیت کے لوگ تھے بعض خود سرکاری ملازم تھے اور بعض اعلی عہدیداروں کی اولاد میں سے تھے ، یہ لوگ کسی سفر پر گئے ، تو وہاں انہیں کوئی نیک آدمی مل گیا جس نے ان کو عیسیٰ (علیہ السلام) کے صحیح دین سے روشناس کرایا اور اس طرح یہ لوگ کفر اور شرک کا راستہ چھوڑ کر ایمان کے راستے پر گامزن ہوچکے تھے ، اس وقت سریانی زبان رائج تھی جس کا رسم الخط عربی تھا ، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہندی اور سنسکرت دو مختلف زبانیں ہیں ، مگر ان کا رسم الخط ملتا جلتا ہے ، اصل انجیل بھی سریانی زبان میں تھی جو اب معدوم ہوچکی ہے اور اب انجیل کے محض تراجم ہی ملتے ہیں جو دنیا کی مختلف زبانوں میں کیے گئے ہیں ، بہرحال امام جلال الدین سیوطی (رح) اور دیگر مفسرین کرام نے اسی سریانی زبان میں ان نوجوانوں کے بھی نقل کیے ہیں جو حسب ذیل ہیں ۔ (1) یملیخا ، (2) مکس مینا (3) مثلینا (4) مرنوش (5) برنوش ، (6) شاذنوش (7) مرطوش ، ان کے کتے کا نام قطمیر یا قطمور تھا البتہ قدیم ترین مفسر قرآن امام ابن جریر طبری (رح) نے حسب ذلیل آٹھ نام لکھے ہیں ۔ (1) مکسل مینا ، (2) محسمیلنا (3) یملیخا (4) مرطوس (5) کشوطوش ، (6) بیرونس (7) دینموس ، (8) یطونس تالوس ، یام مشہور ہی ہے کہ یہ چھ نوجوان تھے جو اپنی بستی سے نکل کھڑے ہوئے ، ساتوں ایک چرواہا تھا جو ان کے ساتھ شامل ہوگیا اور آٹھواں ان کا کتا تھا ۔ (جوانی کا بہترین دور) حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی میں جوانی کا دور ہی ایسا زمانہ ہے جس میں انسان کچھ کرسکتا ہے ، قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کے تین دور بیان فرمائے ہیں یعنی بچپن ، جوانی اور بڑھاپا ، بچپن کا زمانہ پختگی کا زمانہ ہوتا ہے اور انسان ناسمجھی کی وجہ سے کوئی اہم کام انجام نہیں دے سکتا ، بڑھاپا ضعف اور کمزوری کا دور ہوتا ہے اس لیے اس دور میں انسان کوئی انقلابی قدم نہیں اٹھا سکتا ، البتہ جوانی کا دور ہی قوت کا دور ہوتا ہے جس میں انسان انقلابی اقدام کرسکتا ہے بشرطیکہ اس کا فکر صحیح حضور ﷺ پر پہلے ایمان لانے والے بھی نوجوان ہی تھے جنہوں نے پوری دنیا میں اسلامی انقلاب برپا کردیا ، اسلام کے ابتدائی دور میں جو بوڑھے آدمی ایمان لائے ان کی تعداد اٹھارہ اور تین کے درمیان ملتی ہے حدیث شریف میں جن سات آدمیوں کو قیامت کے دن عرش کا سایہ نصیب ہوگا ان میں ” شاب انشا فی عبادۃ اللہ “ بھی ہے یعنی وہ نوجوان جس کا وقت زیادہ تر عبادت الہی میں گزرا ہے ، فارسی والے بھی کہتے ہیں ۔ درجوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری وقت پیری گرگ ظالم می شود پیرہیزگار۔ رجوع الی اللہ کا اصل وقت جوانی کا زمانہ ہے اور یہ اللہ کے نبیوں کا شیوہ ہے وگرنہ بوڑھا ہو کر تو ظالم بھیڑیا بھی اللہ اللہ کرنے لگتا ہے حافظ نے جوانی کے عالم کو اس طرح محسوس کیا ہے ۔ رندی وخرافاتی ورعدہ شباب اولی : یعنی رندی اور خرافاتی بھی جوانی کی عمر میں ہی ممکن ہے بڑھاپے اور بچپن میں تو کچھ نہیں ہو پاتا۔ جگر مراد آبادی بھی کہتا ہے ۔ رخصت ہوئی شباب کے ہمراہ زندگی کہنے کی بات ہے جئے جا رہا ہوں میں : جوانی کا دور ختم ہوا تو سمجھو کہ زندگی ختم ہوگئی کیونکہ بڑھاپے میں ضعف اور امراض کے سوا کیا رہ جاتا ہے ؟ حضرت خواجہ بہاؤ الدین زکریا ملتانی (رح) کے مرید اور بڑے پائے کے عالم اور شاعر عراقی کہتے ہیں ، افسوس کہ ایام جوانی بگزشت سرمایہ وعیش جاودانی بگزشت خفتم بکنار جوئے چنداں ! کر جوئے من آب زندگانی بگزشت : افسوس کہ جوانی کا عالم گزر گیا ، حقیقت یہ ہے کہ عیش و عشرت کا زمانہ چلا گیا ، میں ندی کے کنارے ایسا غافل ہو کر سویا کہ زندگی کا پانی ہی ختم ہوگیا یعنی زندگی ختم ہوگئی اور میں غفلت میں پڑا رہا ۔ (ہدایت میں اضافہ) بہرحال ان چند اہل ایمان نوجوانوں کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ جب انہوں نے کفر اور شرک ترک کرکے ایمان کا راستہ اختیار کرلیا (آیت) ” وزدنھم ھدی “۔ تو ہم نے ان کے لیے ہدایت کا سامان زیادہ کردیا ، ظاہر ہے کہ جو شخص کفر وشرک کے اندھیروں سے نکل کر ایمان کی روشنی میں آتا ہے اور پھر اس راستے پر آنے والے تمام مصائب وآلام کو برداشت کرتے ہوئے صحیح راستے پر گامزن رہتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کے ایمان میں مزید اضافہ کردیتا ہے ۔ سورة محمد میں موجود ہے (آیت) ” والذین اھتدوا زادھم ھدی واتھم تقوھم “۔ جو لوگ ہدایت کا راستہ پکڑتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت میں اضافہ کرتے اور انہیں تقوی کا راستہ عطا کرتے ہیں ۔ ان نوجوانوں نے بھی اپنا تعلق اللہ کے ساتھ مضبوط کرلیا تھا ، پھر انہوں نے بادشاہ کی کوئی پروا نہ کی ، بت پرستی کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا اور دل میں تہیہ کرلیا کہ ہم مخلوق کی خاطر اپنے خالق کو ناراض نہیں کریں گے ان کے دل خشیت الہی اور تقوی سے معمور تھے ، اللہ نے انہیں صبر و استقلال عطا فرمایا اور وہ حق کی بات پر ڈٹے رہے ، اسی بات کے متعلق اللہ نے فرمایا (آیت) ” وربطنا علی قلوبھم “۔ ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کردیا جس شخص کا تعلق اللہ کے ساتھ درست ہوجائے ، اللہ تعالیٰ اس کے دل کو مضبوط کردیتا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے متعلق سورة القصص میں موجود ہے (آیت) ” لولا ان ربطنا علی قلبھا “۔ اگر ہم ان کے دل کو مضبوط کرتے تو قریب تھا کہ وہ اس معاملہ کو ظاہر کر دیتیں ، مگر جس کا تعلق اللہ کے ساتھ درست ہوجائے ، اللہ تعالیٰ اس کے دل کو مضبوط کردیتے ہیں آپ پر کڑی آزمائش آئی بچے کو صندوق میں بند کرکے پانی میں بہادیا ، مگر ثابت قدم رہیں اور راز کو ظاہر نہ کیا ۔ (نوجوانوں کی حق گوئی) بہرحال یہ نوجوان دین حق پر قائم رہے ، ا ن کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی جب ان کے ایمان کا چرچا ہونے لگا تو انہیں پکڑ کر بادشاہ کے سامنے پیش کردیا گیا ، ان کے لے یہ سخت آزمائش کا وقت تھا اللہ نے فرمایا (آیت) ” اذ قاموا “ جب وہ کھڑے ہوئے یعنی بادشاہ کے دربار میں جوابدہی کے لیے پیش ہوئے (آیت) ” فقالوا “ تو انہوں نے کہا (آیت) ” ربنا رب السموت والارض “۔ ہمارا پروردگار تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ، ہم کسی دوسری ذات کو رب ۔۔۔۔۔ کرنے کے لیے تیار نہیں ، کہنے لگے (آیت) ” لن ندعوا من دونہ الھا “۔ ہم اللہ کے سوا کسی دوسرے کو ہرگز معبود نہیں پکاریں گے اگر ہم نے کسی دوسری ذات کو بھی معبود مان لیا (آیت) ” لقد قلنا اذ شططا “ تو ہم بہت زیادتی والی بات کریں گے ، ہم تو اللہ کے سوا کسی کو حاجت روا اور مشکل کشا ماننے کے لیے تیار نہیں ، خالق ، مالک ، متصرف ، عالم الغیب صرف وہی ہے ، کہنے لگے کتنے افسوس کا مقام ہے (آیت) ” ھؤلآء قومنا اتخذوا من دونہ الھۃ “۔ یہ ہماری قوم کے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے سوا طرح طرح کے معبود بنا رکھے ہیں ، یہ لوگ اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے مختلف آستانوں کا رخ کرتے ہیں مگر ہمارا تو معبود ایک ہی ہے ۔ فرمایا (آیت) ” لو لا یاتون علیھم بسلطن بین “۔ یہ لوگ کوئی کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے جس سے ثابت ہو کہ خدا کے سوا کوئی دوسرا بھی معبود ہے ، اس کے سوا کوئی حاجت روا اور مشکل کشا ہے حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں کوئی دلیل موجود ہی نہیں ، یہ کہاں سے لائیں گے ؟ صرف سنی سنائی اور جہالت کی باتیں تو ہو سکتی ہیں معقول دلیل کوئی نہیں ہوسکتی ان کے پاس زیادہ سے زیادہ یہ دلیل ہے کہ ہم تو اس بات کا اتباع کرتے ہیں (آیت) ” ما الفینا علیہ ابآء نا “۔ (البقرۃ : 17) جس پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا ، ہمارے قبیلہ اور برادری کے لوگ ایسا ہی کرتے تھے کیا وہ سارے بیوقوف تھے ؟ فلاں غیر اللہ کی نیاز دیتا ہے فلاں قبروں پر چادریں چڑھاتا ہے ، لہذا ہم بھی اسی طرح کرتے ہیں ، یہی اندھی تقلید ہے جو کہ انسانوں کے لیے تباہ کن ہے تقلید عقل ، بصیرت اور فطرت انسانی کے خلاف ہے ، غرضیکہ کفر ، شرک اور رسومات باطلہ پر کوئی بھی عقلی یا نقلی دلیل پیش نہیں کی جاسکتی ، تو ان نوجوانوں نے بھی یہی کہا کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا معبود بنانے میں کوئی دلیل نہیں ہے ، اگر ہے تو لائیں ۔ اس کے برخلاف اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی قدرت تامہ کی ہزاروں دلیلیں موجود ہیں جو انسانی عقل کی کسوٹی پر پوری اترتی ہیں ، سابقہ اقوام اور آسمانی کتابوں سے منقول دلیلیں بھی ہیں اور روز مرہ مشاہدے میں آنے والی دلیلیں بھی موجود ہیں ، فرمایا یہ لوگ کیوں نہیں کھلی دلیل لاتے (آیت) ” فمن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا “۔ پس اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے جو خدا تعالیٰ پر افتراء باندھتا ہے کفر ، شرک کرنا خدا پر افتراء باندھنا ہے ، دوسری جگہ موجود ہے کہ اگر ارض وسما میں کوئی دوسرا الہ ہوتا تو خدا تعالیٰ کے علم میں ہوتا ، مگر ایسا تو نہیں ہے (آیت) ” ام تنبئونہ بما لا یعلم “۔ (الرعد : 33) کیا تم اللہ کو وہ بات بتانا چاہتے ہو جو اس کے علم میں نہیں ، جو چیز خدا کے علم میں نہیں ، اس کا وجود کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے ، یہ سب افتراء علی اللہ ہے ، اس کے علاوہ غیر اللہ میں الوہیت ثابت کرنا ، یا خدا تعالیٰ کی صفت خاصہ کسی دوسری ذات میں ماننا ، قیامت کا انکار کرنا ، نبوت کا جھوٹا دعوی کرنا سب اللہ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے ، اسلام نے ایسی تمام چیزوں کا علاج سبحان اللہ کے لفظ سے تجویز کیا ہے ، فرمایا (آیت) ” سبحن اللہ عما یشرکون “۔ (الحشر ، 23) خدا کی ذات ان تمام چیزوں سے پاک ہے جن کو وہ خدا کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں ہر وقت ” لا الہ الا اللہ “ کا ورد رکھو ، اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا اقرار کرو ، اس کی تسبیح اور تنزیہہ بیان کرو کہ شرک کا ارتکاب خدا پر جھوٹ باندھنے والی بات ہے ۔
Top