Dure-Mansoor - Al-Kahf : 13
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّ١ؕ اِنَّهُمْ فِتْیَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْنٰهُمْ هُدًىۗۖ
نَحْنُ : ہم نَقُصُّ : بیان کرتے ہیں عَلَيْكَ : تجھ سے نَبَاَهُمْ : ان کا حال بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک اِنَّهُمْ : بیشک وہ فِتْيَةٌ : چند نوجوان اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے بِرَبِّهِمْ : اپنے رب پر وَزِدْنٰهُمْ هُدًى : اور ہم نے اور زیادہ دی انہیں۔ ہدایت
ہم آپ سے ان کا واقعہ بالکل ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں، بلاشبہ یہ چند جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کو اور زیادہ ہدایت دے دی
1:۔ سعید بن منصور، عبدبن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی، اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کو نہیں بھیجا مگر وہ جوان ہوتا ہے اور کسی عالم کو علم نہیں دیا جاتا مگر وہ جوان ہوتا ہے پھر بطور دلیل یہ آیت پڑھی (آیت) ” قالوا سمعنا فتی یذکرھم یقال لہ ابراہیم “ (الانبیاء آیت 20) (آیت) ” واذقال موسیٰ لفتہ “ انہم فتیۃ امنوا برابھم “ 2:۔ ابن ابی حاتم نے ربیع بن انس (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وزدنہم ھدی “ (یعنی ہم نے ان کو زیادہ کیا (اخلاص میں ) ۔ 3:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وربطنا علی قلوبہم “ سے مراد ہے کہ (ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کردیا) ایمان کے ساتھ (اور) (آیت) ” لقد قلنا اذا شططا “ سے مراد ہے جھوٹ۔ 4:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لقد قلنا اذا شططا “ سے مراد ہے ظلم۔ 5:۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ ” الشطط “ سے مراد ہے بولنے میں غلطی کرنا۔
Top