Tafseer-e-Jalalain - An-Nisaa : 44
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَةَ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَؕ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يَشْتَرُوْنَ : مول لیتے ہیں الضَّلٰلَةَ : گمراہی وَيُرِيْدُوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ تَضِلُّوا : بھٹک جاؤ السَّبِيْلَ : راستہ
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا تھا کہ وہ گمراہی کو خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستے سے بھٹک جاؤ
الم تَرَالی الذین اوتوانصیباً من الکتاب، (الآ یة) علماء اہل کتاب کے متعلق قرآن نے اکثر یہ الفاظ استعمال کئے ہیں کہ '' انھیں کتاب کے علم کا کچھ حصہ دیا گیا ہے '' اس کی وجہ یہ ہے کہ اول تو انہوں نے کتاب الہٰی کا ایک بڑا حصہ گم کردیا تھا، پھر کتاب الہٰی کا جو کچھ حصہ ان کے پاس موجود تھا اس کی روح اور اس کے مقصد و مدعا سے وہ بیگانے ہوچکے تھے۔ یُحَرِّ فون الکلمَ عن مواضعہ، اس کے تین مطلب ہیں، ایک یہ کہ کتاب اللہ کے الفاظ میں ردوبدل کردیتے، دوسرے یہ کہ تاویلات فاسدہ سے کتاب اللہ کے معنی کچھ سے کچھ بنا دیتے، تیسرے یہ کہ لوگ محمد ﷺ کی صحبت میں آکر آپ کی باتیں سنتے اور واپس جا کر غلط طریقہ سے بیان کرتے۔ یقولون سمعنا، (الآیة) یعنی جب ان کو خدائی کلام سنایا جاتا ہے تو زور سے کہتے ہیں سَمِعْنا، اور آہستہ سے کہتے ہیں عَصیْنَا .
Top