Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 44
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَةَ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَؕ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يَشْتَرُوْنَ : مول لیتے ہیں الضَّلٰلَةَ : گمراہی وَيُرِيْدُوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ تَضِلُّوا : بھٹک جاؤ السَّبِيْلَ : راستہ
کیا تو نے نہ دیکھا ان کو جن کو ملا ہے کچھ حصہ کتاب سے خرید کرتے ہیں گمراہی اور چاہتے ہیں
خلاصہ تفسیر
(اے مخاطب) کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا (یعنی دیکھنے کے قابل ہیں دیکھو تو تعجب کرو جن کو کتاب (اللہ یعنی توریت کے علم) کا ایک بڑا حصہ ملا ہے (یعنی توریت کا علم رکھتے ہیں باوجود اس کے) کہ وہ لوگ گمراہی (یعنی کفر) کو اختیار کر رہے ہیں اور (خود تو گمراہ ہوئے ہی تھے مگر وہ) یوں چاہتے ہیں کہ تم (بھی) راہ (راست) سے (علیحدہ ہو کر) بےراہ ہوجاؤ (یعنی طرح طرح کی تدبیریں اس کی کرتے ہیں جیسا کہ تیسرے پارہ کے آخر اور چوتھے کے شروع میں کچھ ذکر ہو بھی چکا ہے) اور تم کو اگر ان لوگوں کی اب تک خبر نہ ہو تو کیا ہوا) اللہ تعالیٰ (تو) تمہارے (ان) دشمنوں کو خوب جانتے ہیں (اس لئے تم کو بتلا دیا سو تم ان سے بچتے رہو) اور (ان کا حال مخالفت کا سن کر زیادہ فکر میں بھی نہ پڑجانا، کیونکہ) اللہ تعالیٰ (تمہارا) کافی رفیق ہے (کہ تمہاری مصلحتوں کی رعایت رکھے گا) اور اللہ تعالیٰ (تمہارے لئے) کافی حامی ہے (کہ ان کی مضرتوں سے تمہاری حفاظت کرے گا اور) یہ لوگ (جن کا ذکر ہوچکا ہے) یہودیوں میں سے ہیں (اور ان کا گمراہی کو اختیار کرنا جو اوپر آ چکا ہے یہ ہے کہ) کلام الٰہوی یعنی توریت) کو اس کے مواقع (اور محل) سے (لفظاً یا معنی) دوسری طرف پھیر دیتے ہیں اور (ایک گمراہی ان کی جس میں دھوکہ سے دوسرے سادہ ذہن شخص کا پھنس جانا بھی ممکن ہے یہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے بات چیت کرتے وقت) یہ کلمات کہتے ہیں (جو آگے مذکور ہوتے ہیں، ان کلمات کے دو دو معنی ہیں ایک اچھے اور ایک برے، وہ لوگ برا مطلب لیتے تھے اور دوسروں پر ظاہر کرتے تھے کہ ہم اچھے مطلب سے کہتے ہیں اور اس سے کسی مسلمان کا دھوکہ میں آ کر بعضے ایسے ہی کلمات سے حضور ﷺ سے خطاب کرنا بعید نہ تھا، چناچہ سورة بقرہ کے رکوع نمبر 31 (آیت 401) کہنا ایک گونہ دوسروں کو گمراہ کرنا بھی ہے، گو لفظاً ہی ہو، پس اس میں یریدون ان تضلوا کا لفظ جو کہ اوپر آیا ہے بیان بھی ہوگیا، جیسا کہ من الذین ھادوا میں بیان تھا الذین اوتوا نصیباً کا اور یحرفون میں بیان تھا یشترون کا ان کلمات میں سے ایک یہ ہے کہ سمعاً وعصینا اس کا ترجمہ تو یہ ہے کہ ہم نے سن لیا اور مانا نہیں، اس کا اچھا مطلب تو یہ ہے کہ آپ کا ارشاد ہم نے سن لیا اور کسی آپ کے مخالف کا قول جو کہ ہم کو بہکاتا تھا نہیں مانا۔“ اور بڑا مطلب ظاہر ہے کہ ہم نے آپ کی بات کو سن تو لیا مگر ہم عمل نہ کریں گے) اور دوسرا کلمہ یہ ہے) اسمع غیر مسمع (اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ تم ہماری بات سنو اور خدا کرے تم کو کوئی بات سنائی نہ جاوے، اس کا اچھا مطلب تو یہ کہ تم کو کوئی مخالف اور رنج دہ بات نہ سنائی جاوے، بلکہ آپ کا ایسا اقبال رہے کہ جو بات فرمائیں سب اس کے جواب میں موافق ہی بات آپ کو سنائیں اور برا مطلب یہ ہے کہ تم کو کوئی موافق اور مسرت بخش بات نہ سنائی جائے بلکہ آپ جو بات کہیں اس کا جواب مخالف ہی آپ کے کان میں پڑے) اور (تیسرا کلمہ یہ ہے) راعنا (اس کے دونوں اچھے اور برے مطلب سورة بقرہ میں گزر چکے ہیں کہ اچھے معنی تو یہ ہیں کہ ہماری رعایت کیجئے اور برے معنی لغت یہود میں دشنام ہے، غرض ان کلمات کو) اس طور پر (کہتے ہیں) کہ اپنی زبانوں کو لہجہ توقیر سے لہجہ تحقیر کی طرف) پھیر کر اور (دل سے) دین میں طعنہ زنی (اور تحقیر ہی) کی نیت سے (وجہ یہ ہے کہ نبی کے ساتھ طعن و استہزاء عین دین کے ساتھ طعن و تمسخر ہے) اور اگر یہ لوگ (بائے دو معنی دینے والے الفاظ کے) یہ کلمات کہتے (بجائے سمعنا وعصینا کے) سمعنا اطعنا (جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا) اور بجائے اسمع غیر مسمع کے صرف) اسمع (جس کے معنی خالی یہ ہیں کہا آپ سن لیجئے) اور (بجائے راعنا کے) انظرنا (جس کے معنی یہ ہیں کہ ہماری مصلحت پر نظر فرمایئے اور یہ کلمات معنی شرارت سے پاک ہیں تو اگر یہ کلمات کہتے) تو یہ بات ان کے لئے بہتر (اور نافع بھی) ہوئی اور (حقیقت میں بھی) موقع کی باتیں تھی مگر (انہوں نے تو ایسے نفع اور موقع کی بات کہی ہی نہیں، بلکہ وہی بیہودہ بات بکتے رہے، اس لئے ان کو یہ تکلیف پہنچی کہ) ان کو اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کے سبب (جس میں یہ کلمات بھی آگئے اور بھی ان کے سب اقوال و افعال کفریہ داخل ہوگئے، پس ان سب کفریات کے سبب اللہ تعالیٰ نے ان کو) اپنی رحمت (خاصہ) سے دور پھینک دیا اب وہ ایمان نہ لاویں گے ہاں مگر تھوڑے سے آدمی (بوجہ اس کے کہ وہ ایسی حرکتوں سے دور رہے وہ دوری رحمت خاصہ سے مستثنی ہیں اور وہ ایمان بھی لے آئے جیسے عبداللہ بن سلام وغیرہ)
معارف و مسائل
ربط آیات۔ پچھلی آیات میں مواقع تقویٰ کا بیان تھا، سج میں زیادہ تر ذکر باہمی معاملات کا تھا، درمیان میں کچھ احکام عبادت نماز اور متعلقات کے ذکر کردیئے گئے، جو انسان میں خدا کا خوف اور فکر آخرت پیدا کرتے اور معاملات کی درستگی کو آسان کردیتے ہیں، مذکورہ آیات سے مخالفین کے ساتھ معاملات کا ذکر فرمایا گیا ہے جس میں یہود کی شرارت کا علاج اور مسلمانوں کو الفاظ و عنوان میں بھی ادب کی رعایت کی تلقین کی گئی ہے۔
Top