Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 65
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَاۤ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا
فَوَجَدَا : پھر دونوں نے پایا عَبْدًا : ایک بندہ مِّنْ : سے عِبَادِنَآ : ہمارے بندے اٰتَيْنٰهُ : ہم نے دی اسے رَحْمَةً : رحمت مِّنْ : سے عِنْدِنَا : اپنے پاس وَعَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے علم دیا اسے مِنْ لَّدُنَّا : اپنے پاس سے عِلْمًا : علم
آخرکار انہوں نے (وہاں پہنچ کر) ہمارے بندوں میں سے ایک ایسے بندے کو پا لیا، جس کو ہم نے اپنی ایک خاص رحمت سے نوازا تھا، اور اسے اپنے یہاں سے ایک خاص علم سے سرفراز فرمایا تھا،
115۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی حضرت خضر سے ملاقات :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” وہاں پہنچ کر انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا “ جن کا نام نامی صحیح حدیث کے مطابق خضر تھا۔ جن کی نبوت کے بارے میں علمائے کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ اور راجح قول کے مطابق آپ نبی نہیں تھے۔ اور اگر ان کی نبوت تسلیم بھی کرلی جائے تو پھر بھی آپ کا درجہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے برابر نہیں پہنچتا۔ کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) رسول تھے۔ اور رسول بھی اولو العزم رسول۔ جن کے پاس نئی شریعت اور نئی کتاب تھی اور آپ ایک مستقل امت کے ہادی اور راہنما تھے۔ بخلاف حضرت خضر کے کہ ان کے پاس ان میں سے کوئی بھی چیز نہ تھی پس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو آپ کے پاس جانے کا جو حکم ہوا تھا وہ دراصل ایک ابتلا وآازمائش تھی جس میں حضرت حق جل مجدہ کی طرف سے آنجناب کو ڈالا گیا تھا۔ کیونکہ جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم وغیرہ کی روایات میں وارد ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے ایک مجمع میں ایک بڑا ہی پراثر وعظ فرمایا۔ تو حاضرین میں سے ایک شخص نے اس موقع پر متاثر ہو کر آپ سے عرض کیا کہ حضرت ! کیا اس وقت دنیا میں آپ سے بھی کوئی بڑا عالم موجود ہے ؟ تو آپ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا نہیں۔ یہ جواب اپنی جگہ بالکل صحیح اور درست تھا کیونکہ نبی اپنے زمانے میں واقعتا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے۔ مگر یہ جواب چونکہ آپ کے اس مقام رفیع کے مناسب نہ تھا جو کہ حضرت حق جل مجدہ کی طرف سے آپ کو عطا فرمایا گیا تھا کہ اس میں ایک طرح سے اپنی بڑائی اور عجب وخود پسندی کا اظہار تھا۔ جو کہ مقام عبدیت اور اس شان تواضع کے شایان نہ تھا جو کہ حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی امتیازی شان ہوتی ہے۔ اور جس کے مطابق آپ کو ” اللہ اعلم “ یا اس طرح کا کوئی اور جواب دینا چاہئے تھا۔ اس لئے اس پر حضرت حق جل مجدہ کی طرف سے آپ کو یہ حکم دیا گیا کہ آپ ” مجمع البحرین “ یعنی دونوں دریاؤں کے سنگم پر چل کر ہمارے ایک خاص بندہ سے ملیں۔ جس کو ہم نے اپنی طرف سے ایک خاص علم وفضل سے نواز رکھا ہے۔ ورنہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علم میں نعوذ باللہ کوئی نقص تھا جس کو پورا کرنے اور سیکھنے کیلئے آپ حضرت خضر کے پاس گئے تھے۔ کیونکہ شریعت کے جس علم کا حامل آپ کو بنایا گیا تھا وہ بدرجہ اتم واکمل آپ کو دے دیا گیا تھا۔ اور یوں نبی کا علم اکتسابی ہوتا ہے بھی نہیں، کہ وہ مخلوق میں سے کسی سے علم سیکھ کر کار نبوت چلائے۔ بلکہ اس کا علم براہ راست حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس لئے پیغمبر دنیا میں کبھی انسان سے علم نہیں حاصل کرتے۔ 116۔ حضرت خضر کے علم کی نوعیت ؟:۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” جس کو ہم نے اپنی طرف سے ایک خاص علم سے نوازا تھا “ یعنی کونیات کے اسرار وحکم سے متعلق اس علم سے جو کہ اللہ تعالیٰ کسی تعلم واکتساب کے بغیر محض اپنے فضل وکرم سے اپنی کسی بندے کو بذریعہ الہام ودالقاء عطا فرما دیتا ہے۔ پھر جو وحی ونبوت کے ذریعے کسی کو ملتا ہے اس کو علم نبوی کہا جاتا ہے۔ اور یہ علم ظنی ہوتا ہے۔ (مدارک محاسن اور صفوۃ وغیرہ) مگر یہ افضلیت کا مدارو معیار نہیں ہوتا۔ بلکہ افضلیت کا اصل مدارو معیار شریعت ووحی کا وہ علم ہوتا ہے جو انسان کو اپنے رب سے ملاتا ہے اور اس کو اپنے مقصد زندگی سے آگاہ کرتا ہے۔ اور وہ حضرات انبیائے کرام کو بدرجہ اتم دیا گیا ہوتا ہے۔ رہ گئے دوسرے دنیاوی علوم تو یہ چونکہ معیار فضیلت نہیں ہوتے۔ اس لئے یہ اگر کسی غیر نبی کو نبی سے زیادہ دے دیئے جائیں تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جیسا کہ ” تابیرنخل “ کے قصہ میں ہوا ہے جو کہ صحیح احادیث میں وارد ہے اور وہاں پر آنحضرت ﷺ نے خود ارشاد فرمایا ” انتم اعلم بامور دنیاکم “ کی اپنے دنیاوی امور کو تم لوگ مجھ سے زیادہ جانتے ہو “ بہرکیف یہاں پر حضرت خضر سے متعلق ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے ان کو ایک خاص علم سے نوازا تھا یعنی ایسے خاص علم سے جو کہ فکر و نظر اور کسب واکتساب سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اور جس کو جیسا کہ اوپر گزرا ” علم لدنی “ کہا جاتا ہے۔ اور جس سے سرفرازی میں ظاہری اسباب و وسائل کا دخل نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے القاء والہام کے ذریعے عطا فرمایا جاتا ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت اور بخشش و عنایت کا نتیجہ وثمرہ ہوتا ہے (محاسن التاویل، مدارک التنزیل، صفوۃ التفاسیر اور معارف القرآن وغیرہ) سو اللہ تعالیٰ کی عطاء وبخشش کی صورتیں بےحد وحساب ہیں۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔
Top