Tafseer-e-Majidi - Yaseen : 6
لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اُنْذِرَ اٰبَآؤُهُمْ فَهُمْ غٰفِلُوْنَ
لِتُنْذِرَ : تاکہ آپ ڈرائیں قَوْمًا : وہ قوم مَّآ اُنْذِرَ : نہیں ڈرائے گئے اٰبَآؤُهُمْ : ان کے باپ (دادا) فَهُمْ : پس وہ غٰفِلُوْنَ : غافل (جمع)
تاکہ آپ ان لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادا ڈرائے نہیں گئے تھے، سو وہ (اس سے) بیخبر ہیں،2۔
2۔ یعنی انہیں اسی کا احساس نہیں کہ باز پرس اخروی ہے کیا چیز اور رسالت اور توحید کے معنی کیا ہیں۔ (آیت) ” لتنذر قوما “۔ قوم سے مراد قریش یا قوم عرب ہے۔ جو پیام اسلام کی اولین مخاطب تھی، جس دور سے دنیا اس وقت گزر رہی تھی۔ اور جس منزل میں اس وقت تھی، لوگوں کی سمجھ بھی آسکتا ہے تو عالمگیر نبوت اور کائناتی پیامبری کا تخیل تو وقت کے عام ذہنوں کی گرفت سے بالکل ہی باہر تھا۔ یہی راز ہے اس کا کہ قرآن مجید نے رسول اللہ ﷺ کے پیام کی عالمگیری کو اس تصریح اور اس تکرار کے ساتھ نہیں بیان کیا ہے جس طرح آپ ﷺ کی پیامبری خود آپ ہی کی قوم، قریش یا عرب کی طرف بیان کی ہے۔ نبوت محمدی ﷺ کی یہ عالمگیر حیثیت بھی بیان متعدد مقامات پر ہوئی ہے۔ مثلا (آیت) ” لیکون للعلمین نذیرا۔ وما ارسلنک الا کآفۃ للناس بشیرا ونذیرا “۔ وغیرہا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ وضاحت و تکرار کے ساتھ زور آپ ﷺ کی قومی نبوت پر دیا ہے۔ (آیت) “ قوما مآانذر ابآؤھم “۔ خاص بنی اسماعیل میں کوئی نبی نہیں آیا تھا۔ باقی دوسرے انبیاء کی تعلیمات اگر بالواسطہ اہل عرب تک پہنچ چکی ہوں تو وہ اس کی منافی نہیں۔ اس مفہوم کے حاشیے کئی بار گزر چکے ہیں۔
Top