Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 19
اَوَ لَمْ یَرَوْا كَیْفَ یُبْدِئُ اللّٰهُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : نہیں دیکھا انہوں نے كَيْفَ : کیسے يُبْدِئُ : ابتداٗ کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْخَلْقَ : پیدائش ثُمَّ يُعِيْدُهٗ : پھر دوبارہ پیدا کریگا اس کو اِنَّ : بیشک ذٰلِكَ : یہ عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر يَسِيْرٌ : آسان
کیا ان لوگوں نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح خلق کی ابتداء کرتا ہے پھر اس کا اعادہ کرتا ہے، بیشک یہ اللہ تعالیٰ پر بہت آسان ہے
اَوَلَمْ یَرَوْا کَیْفَ یُبْدِیُٔ اللّٰہُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ ط اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ۔ (العنکبوت : 19) (کیا ان لوگوں نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح خلق کی ابتداء کرتا ہے پھر اس کا اعادہ کرتا ہے، بیشک یہ اللہ تعالیٰ پر بہت آسان ہے۔ ) آیت 23 تک جملہ معترضہ ہے یہاں سے لے کر آیت 23 تک پانچ آیتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تضمین کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ ایک جملہ معترضہ ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سرگزشت کو روک کر کفار مکہ کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کفار مکہ کی کافرانہ زندگی کی بنیاد دو گمراہیاں ہیں۔ ایک شرک و بت پرستی اور دوسری انکارِآخرت۔ شرک اور بت پرستی کی تردید میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نہایت پرزور انداز میں لیکن اختصار کے ساتھ اپنی قوم سے خطاب فرمایا اور آخرت کے صرف ذکر اور انتباہ پر اکتفاء کرتے ہوئے خطاب مکمل فرما دیا۔ یہ واقعات چونکہ کفار مکہ کو ان کی اصلاح کے لیے سنائے جارہے ہیں اس لیے پروردگار نے اپنی طرف سے اس بحث کو مکمل کرنے کے لیے آخرت کے حوالے سے چند باتوں کا اضافہ فرمایا ہے۔ اور اس میں دلیل کی بنیاد عام انسانی مشاہدہ پر رکھی ہے جن میں کفار مکہ بھی شامل ہیں۔ ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ عجیب لوگ ہیں کہ انھیں اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے سے انکار نہیں۔ یہ اپنے آپ کو اسی کی مخلوق سمجھتے ہیں۔ لیکن جو چیز ان کے عقیدے اور مشاہدہ کے نتیجے سے خودبخود ثابت ہوتی ہے اسے ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ یہ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ بیشمار اشیاء عدم سے وجود میں آرہی ہیں جن میں افرادِانسانی بھی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان میں سے ہر نوع کے کتنے افراد ہیں جو موت کا شکار ہوجاتے ہیں لیکن ان کی جگہ خالی نہیں رہتی بلکہ ویسے ہی اور افراد وجود میں آجاتے ہیں۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تخلیقی عمل سے یہ لوگ اس کے خالق ہونے کا اقرار کرتے ہیں لیکن مٹ جانے والی اشیاء کی جگہ اللہ تعالیٰ ویسی ہی اشیاء پے در پے وجود میں لارہا ہے۔ اعادہ کے اس عمل کے نتیجے کو ماننے سے انکار ہے۔ اگر وہ صرف خالق ہوتا تو ایک دفعہ تمام انواع اور ان کے افراد کو پیدا کرکے چھوڑ دیتا۔ مرجانے والوں اور مٹ جانے والوں کی جگہ دوسرے افراد کبھی نہ لیتے تو دنیا کی آبادی بہت جلد ختم ہوجاتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جس طرح اس کائنات کا خالق ہے اسی طرح اپنی مخلوقات جیسی مزید مخلوقات کو دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ اور قیامت اور آخرت اللہ تعالیٰ کی اسی قدرت کے ظہور کا نام ہے۔ قیامت میں جن و انس کے وہ افراد جو اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق سے وجود میں آئے اور پھر اپنی زندگی گزار کے مرگئے انھیں ازسرنو زندہ کرکے جواب دہی کے لیے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا تاکہ اس کے کامل عدل کا ظہور ہوسکے۔ یہ جس طرح اخلاق کا تقاضا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو ہمارے مشاہدے میں آتی رہتی ہیں ان کا اتمام بھی ہے۔ لیکن یہ بات اعجوبے سے کم نہیں کہ آخرت کا انکار کرنے والے اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق کا تو اقرار کریں اور اسے خالق مانیں اور اسی قوت تخلیق سے پیدا کی ہوئی مخلوق کو دوبارہ زندہ کرنے کے عمل کو ماننے سے انکار کردیں۔ حالانکہ جو کام پہلے ہوچکا اسے دوبارہ کرنا یقینا پہلے کی نسبت آسان ہوتا ہے۔
Top