Urwatul-Wusqaa - Al-Ankaboot : 19
اَوَ لَمْ یَرَوْا كَیْفَ یُبْدِئُ اللّٰهُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : نہیں دیکھا انہوں نے كَيْفَ : کیسے يُبْدِئُ : ابتداٗ کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْخَلْقَ : پیدائش ثُمَّ يُعِيْدُهٗ : پھر دوبارہ پیدا کریگا اس کو اِنَّ : بیشک ذٰلِكَ : یہ عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر يَسِيْرٌ : آسان
کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ اللہ نے تخلیق کس طرح شروع کی ، پھر اس کو دوبارہ پیدا کر دے گا ، یہ تو اللہ کے لیے بہت ہی آسان ہے
کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کی ابتداء کی وہ آخرت پر یقین کیوں نہیں کرتے ؟ 19۔ آخرت پر یقین نہ لانے والوں کے پاس آخرت کی زندگی سے انکار کی کوئی دلیل ہے ؟ اچھا اگر وہ کوئی دلیل نہیں رکھتے اور آخرت کی زندگی کو ماننے کے لئے تیار بھی نہیں تو وہ اپنی ابتدائی تخلیق ہی کے متعلق کچھ بیان کردیں گے کہ ایک انسان کی تخلیق کیونکر ہوئی اور اگر وہ تخلیق اول کے متعلق بھی کچھ نہیں کہہ سکتے تو موجودہ تخلیق کے متعلق ہی کچھ اظہار خیال کردیں کہ یہ تخلیق ان کی کیونکر ہو رہی ہے کہ وہ اپنی ایک خواہش نفس کو پورا کرتے ہیں جو طبعی اور فطری چیز ہے لیکن اس کے نتیجہ میں بشرطیکہ انہوں نے اپنی خواہش کو جائز اور صحیح استعمال کیا ہے تو ان کو کیسا صلہ ملا ؟ اور پھر ہر عالم و جاہل کو بدستور مل رہا ہے باوجود اس کے کہ وہ اس کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور نتیجہ سے وہ بھی دو چار ہو رہے ہیں ان دونوں پہلی تخلیقات کو ذہن نشین کرلیں اور یقینا وہ آخرت میں دوبارہ زندہ ہونے سے انکار کر ہی نہیں سکتے حالانکہ اس عام اصول کو تو وہ بھی سمجھتے ہیں کہ بغیر کسی نمونہ اور خاکہ کے جب اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک بہترین مخلوق کے طور پر پیدا کردیا تو اب وہ دوبارہ اس نمونہ اور نقشہ کے مطابق کیوں پیدا نہیں کرسکتا ؟ کیا پہلی پیدائش مشکل تھی یا یہ آخری اور دوسری پیدائش مشکل ہے ؟ پھر جب وہ ایک مشکل چیز کو مان چکے ہیں تو آسان سے انکار کیوں کرتے ہیں ؟ ہم نے تخلیق اول کے متعلق تفصیلی ذکر عروۃ الوثقی جلد ششم سورة حج کی آیات 5 ‘ 6 ‘ سورة المومنون کی آیات 12 ‘ 13 ‘ میں کردیا ہے اور دنیا میں نئی کوششیں جو ہو رہی ہیں ان کا ذکر بھی سورة الفرقان کی آیت 54 میں تفصیل سے کردیا ہے محولہ بالا تینوں مقامات کی تفسیر دیکھ لیں انشاء اللہ کافی کچھ ملے گا اور اصول بات کبھی نہ بھولو کہ پیدائش اول اللہ تعالیٰ کا فضل ہے انسان کے لئے اگر کوئی کمال ہے تو وہ صرف یہ کہ وہ صرف یہ کہ وہ حقیقت کو سمجھ لے کہ پیدائش اول کی حقیقت کیا ہے اور موجودہ زندگی کی پیدائش کی اصل کہاں ہے اور اس طرح آخرت کی زندگی کیونکر ہوگی تینوں کی سمجھ میں آجانے کے بعد اگر وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہاں ان ساری پیدائشوں کا اصل فاعل اللہ تعالیٰ ہے تو یقینا وہ حقیقت کو پا گیا لیکن اگر کسی جگہ کسی کو بھول لگ گئی تو یقینا وہ ایسا بھولا کہ اس نے اپنی آخرت برباد کرلی اور اتنے خسارہ میں رہا جس کا خسارہ پورا ہونے کی کوئی شکل نہ ہوگی پھر کسی فعل کو جان لینا ہی انسان کے لئے اصل خوبی کی بات ہے اس سے آگے جو کچھ ہے وہ سوائے دھوکہ اور فریب نظر کے کچھ بھی نہیں ۔
Top