Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 13
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَقْرَبُوا : نہ نزدیک جاؤ الصَّلٰوةَ : نماز وَاَنْتُمْ : جبکہ تم سُكٰرٰى : نشہ حَتّٰى : یہاں تک کہ تَعْلَمُوْا : سمجھنے لگو مَا : جو تَقُوْلُوْنَ : تم کہتے ہو وَلَا : اور نہ جُنُبًا : غسل کی حالت میں اِلَّا : سوائے عَابِرِيْ سَبِيْلٍ : حالتِ سفر حَتّٰى : یہاں تک کہ تَغْتَسِلُوْا : تم غسل کرلو وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو مَّرْضٰٓى : مریض اَوْ : یا عَلٰي : پر۔ میں سَفَرٍ : سفر اَوْ جَآءَ : یا آئے اَحَدٌ : کوئی مِّنْكُمْ : تم میں مِّنَ : سے الْغَآئِطِ : جائے حاجت اَوْ : یا لٰمَسْتُمُ : تم پاس گئے النِّسَآءَ : عورتیں فَلَمْ تَجِدُوْا : پھر تم نے نہ پایا مَآءً : پانی فَتَيَمَّمُوْا : تو تیمم کرو صَعِيْدًا : مٹی طَيِّبًا : پاک فَامْسَحُوْا : مسح کرلو بِوُجُوْهِكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيْكُمْ : اور اپنے ہاتھ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَفُوًّا : معاف کرنیوالا غَفُوْرًا : بخشنے والا
(اے ایمان والو ! مت قریب جائو نماز کے جس وقت تم نشہ کی حالت میں ہو یہاں تک کہ جو کچھ تم زبان سے کہتے ہو اس کو سمجھنے لگو اور نہ اس وقت جب جنابت کی حالت میں ہو مگر یہ کہ بس گزرجانا پیش نظرہویہاں تک کہ غسل کرلو اور اگر تم مریض ہو یا سفر میں ہو یا آئے تم میں سے کوئی جائے ضرور سے یا عورتوں سے ہم صحبت ہوا ہو پھر تم نہ پائو پانی تو ارادہ کرو پاک زمین کا اور اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرو، بیشک اللہ درگزر کرنے والا بخشنے والا ہے
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلاَ جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا وَاِنْ کُنْـتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْعَلٰی سَفَرٍ اَوْجَآئَ اَحَدٌ مِّنْـکُمْ مِّنَ الْغَآئِِطِ اَوْلٰـمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَـآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَـیِّـبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّاغَفُوْرًا (اے ایمان والو ! مت قریب جاؤ نماز کے جس وقت تم نشہ کی حالت میں ہو یہاں تک کہ جو کچھ تم زبان سے کہتے ہو اس کو سمجھنے لگو اور نہ اس وقت جب جنابت کی حالت میں ہو مگر یہ کہ بس گزرجانا پیش نظرہویہاں تک کہ غسل کرلو اور اگر تم مریض ہو یا سفر میں ہو یا آئے تم میں سے کوئی جائے ضرور سے یا عورتوں سے ہم صحبت ہوا ہو پھر تم نہ پائو پانی تو ارادہ کرو پاک زمین کا اور اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرو، بیشک اللہ درگزر کرنے والا بخشنے والا ہے) (النسآء : 43) اس رکوع کے آغاز میں آپ نے دیکھا کہ اللہ ہی کی عبادت اور والدین، اقربا اور کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ احسان اور انفاق کرنے کا حکم دیا اور اس کے ساتھ ساتھ جو چیزیں عبادت، احسان اور انفاق کو باطل کرنے والی تھیں مثلاً شرک، ریا اور تکبر وغیرہ کا ذکر فرمایا۔ اس آیت کریمہ میں نماز کا اس حوالے سے ذکر کیا جارہا ہے کہ یہ عبادت کا سب سے اہم رکن اور اہم جز ہے۔ اس سے جہاں اللہ کے حق عبادت کی وضاحت ہوگی وہیں اس کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کا بھی ذکر فرمایا جو نماز کے لیے مفسدات کا درجہ رکھتی ہیں۔ چناچہ سب سے پہلے یہ حکم دیا کہ نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جانا۔ صلٰوۃ کا مفہوم صَلٰوۃ کے معنی اگرچہ نماز کے ہیں۔ لیکن اس جملے کے الفاظ پر غور کرنے سے ایک اور بات کی طرف بھی ذہن منتقل ہوتا ہے وہ یہ کہ یہاں فرمایا گیا : لاَ تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ ” نماز کے قریب نہ جاؤ “ حالانکہ نماز ادا کی جاتی ہے یا پڑھی جاتی ہے اس کے قریب جانے یا نہ جانے کا کوئی مفہوم نہیں۔ جو آدمی نماز نہیں پڑھتا وہ نماز سے دور ہے اور جو پڑھتا ہے وہ نماز کے قریب ہے، درمیان کی کوئی منزل نہیں۔ اس لیے جب بھی کسی کو نماز کا حکم دیا جاتا ہے تو اسے نماز پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے نماز کے قریب جانے کا نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نما ز کے ساتھ کسی اور بات کی طرف بھی اشارہ ہے۔ اس کو یوں سمجھئے کہ جس طرح ہم ظرف بولتے ہیں تو بعض دفعہ اس کا مظروف بھی اس کے مفہوم میں شامل ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم یہ کہتے ہیں کہ نہر چلتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پانی چلتا ہے، اسی طرح کبھی مظروف بھی ظرف کے مفہوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ صَلٰوۃ مظروف ہے اور مسجد اس کا ظرف ہے۔ یہاں اگرچہ صلوٰۃ کا لفظ ذکر کیا گیا ہے لیکن اس کے مفہوم میں مسجد بھی شامل ہے تو آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ تم نشے کے حال میں نماز کے لیے مسجد میں مت جاؤ اور نماز کے بغیر بھی مسجد کے قریب مت پھٹکو یعنی اس سے گزرنے کی کوشش نہ کرو۔ ہاں ! اگر کوئی اور راستہ نہ ہو اور گزرنا بہت ضروری ہو تو : اِلَّاعَابِرِیْ سَبِیْلٍکہہ کر گزرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اگرچہ اس کے ساتھ بعض فقہا نے یہ شرط عائد کی ہے کہ وضو کرلینا چاہیے۔ شراب کی حرمت تدریج کے ساتھ اسلام کی بعثت سے پہلے عرب لوگ بہت ساری بری عادتوں میں مبتلا تھے۔ انھیں میں سے ایک عادت شراب پینا بھی تھی اور یہ ایسی بری عادت تھی کہ جنھیں عربوں سے چھڑوانا آسان کام نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض قبیلے اسلام لانے کے لیے اس شرط پر اصرار کرتے تھے کہ ہمیں شراب پینے کی اجازت دی جائے۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے اسے تسلیم نہیں فرمایا۔ دنیا کا تجربہ بھی یہی ہے کہ سب سے مشکل جو عادت چھٹتی ہے وہ شراب پینے کی عادت ہے۔ امریکہ میں غالباً 1908 ء میں شراب کی حرمت کا بل پاس کیا گیا اور لوگوں کے دلوں میں شراب کی نفرت پیدا کرنے اور اس کے ترک کے فوائد بیان کرنے کے لیے کروڑوں روپیہ پر اپیگنڈہ پر صرف کیا گیا۔ لیکن آٹھ سال کے بعد جو رپورٹ ملی وہ نہایت تشویشناک تھی کہ ملک میں شراب نوشی پہلے سے کہیں بڑھ گئی، بھٹیوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا۔ فرق صرف اتنا پڑا کہ اب بظاہر شراب کی بھٹیاں دکھائی نہیں دیتی تھیں لیکن گھروں میں یہ کاروبار جاری تھا۔ مایوس ہو کر پارلیمنٹ کو شراب کی حرمت کابل واپس لینا پڑا۔ اس انسانی کمزوری کا احساس کرتے ہوئے پروردگار نے شراب کو یک لخت حرام نہیں فرمایا بلکہ اس کے احکام تدریجاً نازل فرمائے۔ ابتداء میں صرف اتنا اشارہ کیا کہ یہ مضر اور نقصان دہ چیز ہے۔ اس سے بعض لطیف طبائع نے شراب چھوڑ دی۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی جس میں اوقاتِ نماز میں شراب کی ممانعت کردی گئی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ دن میں شراب کا استعمال بندہوگیا۔ عشاء کی نماز کے بعد ہی لوگ اس سے شوق کرتے کچھ مدت بعد سورة المائدہ میں شراب کی قطعی حرمت کا حکم نازل ہوا۔ اس آیت کے شان ِ نزول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک روز حضرت عبدالرحمن ابن عوف ( رض) کے ہاں کئی صحابہ موجود تھے کھانے کے بعد شراب کا دور چلا، جب وہ اس کے نشہ سے جھوم رہے تھے تو مغرب کی نماز کا وقت آگیا ایک صاحب امامت کے لیے آگے بڑھے اور اتفاق سے سورة الکافرون پڑھنا شروع کردی اور بےخودی میں لا اعبد ماتعبدون کی جگہ اعبد ماتعبدون پڑھ گئے، جس سے معنی بالکل بدل گیا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور نشہ کی حالت میں بارگاہِ الٰہی میں حاضری سے روک دیا گیا۔ اس سے پہلی آیت میں قیامت کے روز بارگاہِ الٰہی میں حاضری کا ذکر گزرا اس آیت میں بارگاہِ الٰہی میں حاضری کے آداب سکھائے جارہے ہیں تاکہ قیامت کی حاضری آسان ہو۔ حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَاتَقُوْلُوْنَ کا مفہوم حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَاتَقُوْلُوْنَ کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تم نماز پڑھ رہے ہو اور نماز میں جو پڑھنا چاہیے وہی پڑھ رہے ہو ایسا نہ ہو کہ تم قرآن کریم کی بجائے کوئی غزل شروع کردو اور تسبیح وتہلیل کی بجائے گانا شروع کردو۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ تم جو پڑھ رہے ہو تمہیں اس کا ترجمہ آنا چاہیے۔ ترجمہ کا تعلق علم سے ہے اور علم تو حاصل کیے بغیر نہیں آتا اور جو کچھ آدمی کہتا ہے اس کے بارے میں یہ معلوم ہونا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اس کا تعلق ہوش و حواس اور سلامتیِ عقل سے ہے۔ یہاں اسی کی طرف اشارہ ہے بعض لوگوں نے بلاوجہ اس سے دوسرے مطالب نکالنے کی کوشش کی ہے۔ مزید یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جس طرح یہ حکم شراب کے بارے میں دیا ہے گہری نیند کے بارے میں بھی حضور نے یہی ارشاد فرمایا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے : اذانعس احدکم وھویصلی فلینصرف فلینم حتی یعلم مایقولُ (جب تم میں سے کسی پر نیند کا غلبہ ہوجائے اور وہ نماز پڑھ رہاہو تو اسے چاہیے کہ وہ نماز چھوڑ کر سوجائے اور نیند پوری کرنے کے بعد جب ہوش و حواس درست ہوجائیں تو پھر نماز ادا کرے) وَلاَ جُنُباً جس طرح تم نشہ کی حالت میں نماز اور مسجد کے قریب نہیں جاسکتے اسی طرح حالت جنابت میں بھی تم نہ نماز پڑھ سکتے ہو اور نہ مسجد میں داخل ہوسکتے ہو، جب تک غسل نہ کرلو۔ اِلاَّعَابِرِیْ سَبِیْلٍٍ کا مفہوم اِلاَّعَابِرِیْ سَبِیْلٍاس کے دو ترجمے کیے گئے ہیں۔ ایک تو یہ (مگر یہ کہ تم سفر کررہے ہو) ۔ اور دوسرا یہ (مگر یہ کہ تم راستہ گزرنے والے ہو) ۔ دوسرے ترجمے کے اعتبار سے مفہوم یہ ہوگا کہ تم نشے کی حالت میں ہو یاحالتِ جنابت میں اگر تمہیں مسجد سے گزرنا ضروری ہو اور دوسرا کوئی راستہ نہ ہو تو صرف گزرنے کی اجازت ہے ٹھہرنے کی اجازت نہیں۔ پہلے ترجمے کی رو سے مفہوم یہ ہوگا کہ سفر کی حالت میں جنبی کو اجازت ہے کہ وہ تیمم کرکے غسل کے بغیر نماز پڑھ لے۔ لیکن زیادہ واضح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس سے سفر نہ مراد لیا جائے کیونکہ سفر کا ذکر آگے آرہا ہے۔ اس لیے اس سے سفر مراد لینا تکلف کے سوا اور کچھ نہیں۔ کن صورتوں میں تیمم جائز ہے وَاِنْ کُنْـتُمْ مَّرْضٰٓی یہاں سے آخر آیت تک ان صورتوں کا بیان ہورہا ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے تیمم کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ ان میں سب سے پہلی صورت یہ ہے کہ انسان بیمار ہے اور ڈاکٹروں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ پانی کے استعمال سے مرض میں اضافہ ہوسکتا ہے تو پانی کی موجودگی میں بھی اس کے لیے تیمم کی اجازت ہے۔ ایک صورت یہ بھی ممکن ہے کہ پانی کے استعمال سے مرض بڑھنے کا اندیشہ تو نہ ہو لیکن تکلیف کی شدت کے باعث یا کسی چوٹ یا زخم کی وجہ سے مریض زیادہ حرکت نہ کرسکتا ہو اور دوسرا کوئی ایسا شخص پاس نہ ہو جو اسے وضو کراسکے۔ تو اس کے لیے بھی لیٹے لیٹے یا کسی طرح اگر تیمم ممکن ہو تو تیمم کرکے نماز پـڑھ سکتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی حالت سفر میں ہے، اس میں دو صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ پانی تو موجود ہو لیکن سفر کی نوعیت اس طرح کی ہو کہ وضو کرنا انتہائی مشکل ہو۔ مثلاً جہاز کا سفر ہے اس کے تنگ سے باتھ روم میں ہر شخص کے لیے وضو کرنا آسان نہیں ہوتا یا ٹرین کا سفر ہے تو اس میں بھی یہی کیفیت ہوتی ہے بلکہ گندگی سے لتھڑ جانے کا زیادہ خدشہ ہوتا ہے اور اگر کسی اسٹیشن پر اتر کروضو کرنے کی کوشش کی جائے تو گاڑی کے نکل جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ بس کا سفر تو بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ مشکلات کا باعث ہوتا ہے مختصر یہ کہ سفر کی رواروی اگر وضو کرنے کی اجازت نہ دے یا وہ جنبی ہے اور وہ غسل نہ کرسکے اور غسل کرنا تو سفر میں مشکل کیا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں اس مسافر کو بعض فقہا تیمم کی اجازت دیتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ سفر کی یہ رواروی تو نہ ہو لیکن پانی کم یاب یا نایاب ہو۔ پانی اس حد تک کم ہو کہ اگر غسل کرلیا گیا یا وضو کرلیا گیا تو پینے کے لیے پانی نہیں بچے گا تو اس صورت میں بھی تیمم کرنا جائز ہے اور یا یہ صورت ہو کہ سرے سے پانی موجودہی نہ ہو اور دور دور تک کوشش کرکے دیکھ لی جائے پانی ملنے کے کوئی آثار نہ ہوں تب بھی تیمم کرکے نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ تیسرا وہ شخص ہے جو رفع حاجت سے واپس آئے۔ اس کے لیے قرآن کریم نے اَلْغَائِِطِ کا لفظ استعمال کیا ہے اس کا معنی ہوتا ہے ’ نشیبی زمین ‘ لیکن یہاں یہ قضائے حاجت سے کنایہ ہے۔ دیہاتی زندگی میں جہاں گھروں میں بیت الخلاء نہیں ہوتے اور لوگوں کا معمول یہ ہے کہ وہ خاموشی سے باہر آبادی سے دور اس ضرورت سے فارغ ہوتے ہیں تو کوئی بھی آدمی جب رفع حاجت کے لیے باہر جاتا ہے تو وہ ہمیشہ نشیبی جگہ تلاش کرتا ہے اور ایسی جگہ ڈھونڈتا ہے جہاں جھاڑیاں ہوں یا کسی بھی فصل کے پودوں نے پردہ ساکررکھاہو۔ قرآن کریم نے بجائے قضائے حاجت کہنے کے، اس لفظ کے استعمال سے مفہوم بھی ادا کردیا اور حسن تعبیر کی ایک مثال بھی قائم کردی۔ ہم جانتے ہیں کہ قضائے حاجت کے بعد آدمی ناپاک ہوجاتا ہے لیکن یہ ناپاکی وضو سے دور ہوجاتی ہے، اس کے لیے غسل کرنا ضروری نہیں۔ ایسے شخص کو اگر پانی میسر نہ آئے یا وضو کرنے میں اور کوئی شرعی رکاوٹ ہو تو اس کے لیے بھی تیمم کرنا جائز ہے۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ شوہر نے اپنی بیوی سے ملاقات کی ہو۔ اسے قرآن کریم نے لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ سے تعبیر کیا ہے۔ ملامست کے معنی یقینا چھونے اور ہاتھ لگانے کے بھی ہیں۔ لیکن اہل زبان مباشرت کے لیے کنائے کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے بھی معلوم ہوتا ہے اسی معنی میں استعمال کیا ہے۔ اگرچہ اس میں اہل علم کا اختلاف ہے لیکن امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب اس سے مباشرت ہی مراد لیتے ہیں۔ مباشرت کے بعد غسل فرض ہوجاتا ہے۔ ایسے وقت میں اگر پانی میسر نہ ہو تو تیمم کرنے کی اجازت ہے۔ آیتِ کریمہ کے آخر میں پروردگار نے صرف تیمم کرنے کی اجازت ہی مرحمت نہیں فرمائی بلکہ تیمم کا طریقہ بھی سکھایا اور سنت نے اسے عملی شکل دے کروضاحت کردی۔ تیمم کا معنی ہوتا ہے ” قصد کرنا “ اور صعید ” سطحِ ارض “ کو کہتے ہیں، لیکن وہ جگہ طیب اور پاک ہونی چاہیے۔ یہ ضروری نہیں کہ اس پر مٹی بھی موجود ہو۔ زمین کی بالائی سطح یا مٹی اور اس کی جنس سے بنی ہوئی کوئی چیز چاہے اس پر غبار ہے یا نہیں تیمم کے لیے کافی ہے۔ امام صاحب کے نزدیک مٹی اور مٹی کی جنس کی سب چیزوں مثلاً پتھر، ریت وغیرہ سے بھی تیمم جائز ہے بشرطیکہ وہ پاک ہو۔ مٹی کی جنس سے ہونے کی علامت عام طور پر یہ بیان کی جاتی ہے کہ اسے آگ نہ جلاسکتی ہو۔ تیمم کرنے کا طریقہ تیمم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے تیمم کی نیت کرے اس کے بعد دونوں ہاتھ زمین پر مارے۔ اگر ان کے ساتھ غبار زیادہ لگ جائے تو ہاتھوں کو جھاڑ کر یا پھونک سے کم کردے۔ اس کے بعد اپنے چہرہ پر ملے۔ دوبارہ پھر اسی طرح زمین پر دونوں ہاتھ مار کر دونوں بازوئوں کی کہنیوں تک ملے، جس طرح منہ، ہاتھ اور بازو دھوتے ہوئے بال برابر جگہ بھی خشک نہیں رہنی چاہیے اسی طرح تیمم میں بھی کوئی جگہ مسح سے باہر نہیں رہنی چاہیے۔ تیمم وضو یا غسل کا مقصد کیسے ادا کرسکتا ہے ؟ رہی یہ بات کہ تیمم وضو کے قائم مقام کیسے ہوسکتا ہے ؟ اس کا تعلق ایک مومن کے احساس سے ہے۔ نماز درحقیقت اللہ کے حضور حاضری کا نام ہے۔ اس کے حضور حاضری کے لیے صرف پاکیزہ جسم درکار نہیں بلکہ دل و دماغ کے ریشے ریشے میں ہمہ نوع پاکیزگی ہونی چاہیے۔ ایسی پاکیزگی ظاہر ہے نہ جسم پر پانی بہالینے سے ہوتی ہے اور نہ ہاتھ پائوں اور منہ دھولینے سے۔ اس کے لیے تو ضروری ہے کہ آدمی کے دماغ کی فکر اور دل کا احساس ظاہری طہارت کے ساتھ ساتھ پوری طرح تطہیر کے عمل سے گزرے اور تطہیر کا یہ عمل اللہ کی ذات اور اس کی صفات کے یقین اور استحضار سے شروع ہوتا ہے اور اللہ کے ساتھ عشق و محبت کی سرمستیوں اور دیدہ ودل کی بےتابیوں سے مکمل ہوتا ہے۔ ان دونوں کا تعلق نہ پانی کے استعمال سے ہے نہ مٹی کے مسح سے بلکہ وہ اس اہم نفسیاتی تدبیر سے اور اس گہرے تصور سے ہے کہ آدمی جب بھی نماز کے لیے کھڑاہو تو اس کے اندر برابر یہ احساس چٹکیاں لے کہ کیا میں پوری طرح اپنے ظاہر و باطن میں پاکیزہ ہوں یا نہیں ؟ اگر وہ واقعی اپنے اس احساس کی گرفت میں ہے تو وہ جس طرح اپنے دل و دماغ سے برے خیالات نکالنے کی کوشش کرے گا اسی طرح اگر وہ پانی کے استعمال پر قادر ہے اور پانی میسر ہے تو وہ پانی سے اپنے ظاہر کو پاک کرنے کی کوشش کرے گا اور اگر پانی میسر نہیں تو وہ تیمم کے ذریعے اس احساس کو باقی رکھنے کے لیے پاکیزگی کا اہتمام کرے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ظاہر و باطن کی پاکیزگی اللہ کے احکام کی تعمیل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں ہے۔ یہ اگر وضو یا غسل کے ذریعے ہو تو عین سعادت کی بات ہے اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو چونکہ میرے پروردگار نے تیمم کو اس کا قائم مقام ٹھہرایا ہے تو اب میرے احساس کو اسی کے ذریعے پاکیزگی نصیب ہوسکتی ہے۔
Top