Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 44
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَةَ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَؕ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يَشْتَرُوْنَ : مول لیتے ہیں الضَّلٰلَةَ : گمراہی وَيُرِيْدُوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ تَضِلُّوا : بھٹک جاؤ السَّبِيْلَ : راستہ
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ؟ جن کو کتاب الٰہی کا ایک حصہ ملا۔ وہ گمراہی کو ترجیح دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستہ گم کر بیٹھو
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْـکِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰـلَۃَ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَ ط وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاَعْدَآئِکُمْ ط وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَلِیًّا ق ز وَّ کَفٰی بِاللّٰہِ نَصِیْرًا (کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ؟ جن کو کتاب الٰہی کا ایک حصہ ملا۔ وہ گمراہی کو ترجیح دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستہ گم کر بیٹھو اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور اللہ کافی ہے حمایت کے لیے اور اللہ کافی ہے مدد کے لیے) (النسآء : 44 تا 45) اصلاحِ معاشرہ کے متعلق احکام کا جو سلسلہ جاری تھا وہ اس وقت کے معاشرے کی ضرورت کے مطابق اتمام کو پہنچ گیا۔ اب ان لوگوں کو اور ان کے کرتوتوں کا ذکر کیا جارہا ہے جو اس اصلاحی عمل کا راستہ روکنا چاہتے ہیں اور جن کے پیش نظر اللہ کے اس دین کو ناکام کرنے کے سوا اور کوئی ہدف نہیں۔ ان میں سب سے پہلے اہل کتاب کو ذکر کیا جارہا ہے اور اہل کتاب میں سے بھی یہود پر سب سے پہلے تنقید کی جارہی ہے کیونکہ یہی گروہ اس وقت مدینہ میں علمی اور مالی حیثیت سے اور اثرواقتدار کی وجہ سے مدینہ کے معاشرے پر سب سے زیادہ اثر انداز تھا اور یہی وہ گروہ ہے جس نے من حیث المجموع اسلام اور مسلمانوں کا راستہ روکنے کا فیصلہ کیا۔ اُوْتُوْا نَصِیْـبًا مِّنَ الْـکِتٰبِ کا مفہوم یہود کے حوالے سے سب سے پہلی بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کتاب کا ایک حصہ دئیے گئے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم انھیں دوسرے مواقع پر اہل کتاب کہہ کر پکارتا ہے اہل کتاب تو وہی ہوگا جس کے پاس کتاب کا حصہ نہیں بلکہ کتاب موجود ہو۔ لیکن قرآن کریم کوئی لفظ بلاوجہ استعمال نہیں کرتا اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس پر غور کریں۔ مختلف اہل علم نے اس کی مختلف توجیہات کی ہیں۔ بعض اہل علم کا گمان ہے کہ دراصل گزشتہ آسمانی صحیفوں اور قرآن کریم میں نسبت جزو اور کل کی ہے۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کامل کتاب ہے۔ جس میں مکمل انسانی زندگی کی رہنمائی کے لیے ہدایات دی گئی ہیں۔ اعتقادات، معاملات، اسلوبِ حکومت اور آداب زندگی میں سے ہر ضرورت کو قیامت تک کے لیے پورا کردیا گیا ہے اور پہلی کتابوں میں جو احکام دیئے گئے تھے ان میں آئندہ زمانوں کے لیے جو مفید تھے انھیں تکمیلی شکل دے دی گئی ہے اسی وجہ سے اب قیامت تک انسانوں کو کسی اور پیغمبر اور کسی اور کتاب کی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوگی۔ اس لحاظ سے قرآن کریم کو ایک مکمل کتاب کہنا ہر لحاظ سے بجا ہے۔ لیکن باقی آسمانی صحیفے اس کے مقابلے میں اجزا اور حصص کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر یہود آگے بڑھ کر قرآن کریم کو ہاتھوں ہاتھ لیتے اور اسے سمجھنے کی کوشش کرتے تو انھیں احساس ہو تاکہ اللہ نے ہمیں کتاب کی صورت میں جو نعمت عطا فرمائی تھی وہ اپنی تکمیلی شان میں تو اب نازل ہوئی ہے تو ان کے لیے لازم تھا کہ یہ دوسروں سے بڑھ کر اس کتاب کی قدر کرتے۔ بعض دوسرے اہل علم کا خیال ہے کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ انھیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے پہلی نسلوں نے اس کتاب الٰہی کے نجانے کس کس حصے کو ضائع کرڈالاکیون کہ تورات کی پانچویں کتاب ،” کتاب تثنیہ “ انھوں نے ایسی گم کی کہ جو کئی صدیوں کے بعد انھیں دوبارہ مل سکی۔ اس کے علاوہ نجانے اور وہ کیا کیا گم کرچکے ہیں کیونکہ یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ یہ کتاب تین دفعہ دنیا سے ناپید ہوچکی ہے اور جو کچھ کتاب میں سے ان کے پاس موجود بھی ہے اس کے مقصد اور روح کو اگر دیکھا جائے تو اس سے تو وہ بالکل بےگانہ ہوچکے ہیں ان کی تمام دلچسپیاں لفظی بحثوں اور احکام کے جزئیات اور عقائد کی فلسفیانہ پیچیدیگیوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کتاب رکھتے ہوئے بھی دین کی حقیقت سے ناآشنا اور دینداری کے جوہر سے محروم ہیں۔ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰـلَۃَ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَ یہاں سے اسلام کے خلاف ان کے عزائم اور ان کی سازشوں کا بیان شروع ہو رہا ہے لیکن بات لپیٹ کر کہی گئی ہے کیونکہ وہ اپنی حرکتوں سے پوری طرح واقف ہیں اس لیے ان کے لیے تو اشارہ ہی کافی ہے اور مسلمانوں پر چونکہ اس سے پہلے سورة البقرۃ نازل ہوچکی ہے، ان کے لیے بھی ان کی حرکات کوئی نئی بات نہیں۔ وہ اس اختصار میں پوری تفصیل کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں یَشْتَرُوْنَکالفظ استعمال ہوا ہے۔ اشتراء کا معنی ” خریدنا بھی ہوتا ہے اور بیچنا بھی “۔ لیکن اس معنی کی اصل روح ترجیح دینا ہے۔ بتلانا یہ ہے کہ تم ان کی زندگیوں میں جھانک کردیکھو۔ تو تمہیں اندازہ ہوگا کہ باوجود اہل کتاب ہونے کے ان کا اصل رشتہ ضلالت اور گمراہی سے ہے۔ انھیں ہدایت سے واجبی سی بھی دلچسپی نہیں وہ ہر معاملے میں ہدایت پر ضلالت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کتاب کا علم رکھنے کی وجہ سے وہ ہدایت کے شائق اور طلب گار ہوتے لیکن انھوں نے کتاب سے اپنا تعلق ایسا توڑ لیا ہے کہ اب وہ بجائے ہدایت کے ضلالت اور گمراہی کو اپنی منزل بنا چکے ہیں اور یہ ان کی مجبوری بھی ہے کیونکہ اگر وہ ہدایت کے راستہ پر چلیں اور اپنی قوم کو بھی اس پر چلنے کی ترغیب دیں تو ان کے مفاد پرست علماء اور جاہ پرست مشائخ اپنے کاروبار اپنی فتوحات اور اپنی آمدنی سے یکسر محروم ہو کر رہ جائیں اور ایسا وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ جس طرح اندھیرے کا خوگر روشنی کا دشمن ہوجاتا ہے اسی طرح وہ ہدایت سے تعلق ٹوٹ جانے کے باعث صراط مستقیم سے ایسے اترے ہیں کہ تمہارے بارے میں بھی ان کی یہ کوشش ہے کہ تمہیں بھی گمراہ کردیں کیونکہ تمہاری لائی ہوئی روشنی ان کے اندھیروں کی دشمن ہے۔ چراغ جلے گا تو تاریکی کو پائوں سمیٹنے پڑیں گے اور آفتاب چمکے گا تو ہر گھر میں اجالا پھیلے گا۔ اپنے اندھیرے کو باقی رکھنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ روشنیوں کو گل کرنے کی کوشش کی جائے چناچہ وہ ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں اور ان سے جو بن پڑتا ہے اسے کر گزرنے سے دریغ نہیں کرتے اس کی پوری تفصیل ” سورة البقرۃ “ میں گزر چکی ہے اور کچھ مزید اشارات آگے آرہے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں استقامت کے ساتھ صراط مستقیم پر چلتے رہو۔ تم یہ نہ سمجھو کہ تمہارا اللہ تمہارے دشمنوں سے بیخبر ہے بلکہ وہ تمہارے دشمنوں کو تم سے زیادہ جانتا ہے اور اتنا جانتا ہے کہ تم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے کیونکہ وہ ہزار پردوں میں چھپی ہوئی سازشوں کو بھی دیکھ رہا ہے اور آئندہ چل کر تمہارے دشمن جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ ان سے بھی واقف ہے۔ تمہیں اپنے ایمان وعمل جذبہ جہاد اور اتحاد میں کوئی کمی نہیں آنے دینی چاہیے اور تمہارا بھروسہ صرف اللہ پر ہونا چاہیے اور یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ جس کا حامی، جس کا پشت پناہ اور جس کا مددگارہو اس کے لیے کوئی پریشانی کا موقعہ نہیں۔ وہ اپنے بندوں کی مدد بھی کرتا ہے اور ان کی حفاظت بھی کرتا ہے۔
Top