Tafheem-ul-Quran - Al-Ankaboot : 15
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَصْحٰبَ السَّفِیْنَةِ وَ جَعَلْنٰهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
فَاَنْجَيْنٰهُ : پھر ہم نے اسے بچالیا وَاَصْحٰبَ السَّفِيْنَةِ : اور کشتی والوں کو وَجَعَلْنٰهَآ : اور اسے بنایا اٰيَةً : ایک نشانی لِّلْعٰلَمِيْنَ : جہان والوں کے لیے
پھر نُوحؑ کو اور  کشتی والوں24 کو ہم نے بچا لیا اور اُسے دنیا والوں کے لیے ایک نشانِ عبرت بنا کر رکھ دیا۔25
سورة العنکبوت 24 یعنی ان لوگوں کو جو حضرت نوح پر ایمان لائے تھے اور جنہیں کشتی میں سوار ہونے کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی تھی۔ سورة ہود میں اس کی تصریح ہے حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَ اَمْرُنَا وَفَار التَّنُّوْرُ ۙ قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ ۭ وَمَآ اٰمَنَ مَعَهٗٓ اِلَّا قَلِيْلٌ۔ (ہود۔ آیت 40) " یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور تنور ابل پڑا تو ہم نے کہا کہ (اے نوح) اس کشتی میں سوار کرلے ہر قسم کے (کے جانوروں) میں سے ایک ایک جوڑا، اور اپنے گھر والوں کو سوائے ان کے جنہیں ساتھ نہ لینے کا پہلے حکم دے دیا گیا ہے، اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں، اور اس کے ساتھ بہت ہی کم لوگ ایمان لائے تھے "۔ سورة العنکبوت 25 اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس ہولناک حقوبت کو یا اس عظیم الشان واقعہ کو بعد والوں کے لیے نشان عبرت بنادیا گیا۔ لیکن یہاں اور سورة قمر میں یہ بات جس طریقہ سے بیان فرمائی گئی ہے اس سے متبادر یہی ہوتا ہے کہ وہ نشان عبرت خود وہ کشتی تھی جو پہاڑ کی چوٹی پر صدیوں موجود رہی اور بعد کی نسلوں کو خبر دیتی رہی کہ اس سرزمین میں کبھی ایسا طوفان آیا تھا جس کی بدولت یہ کشتی پہاڑ پر جا ٹکی ہے۔ سورة قمر میں اس کے متعلق فرمایا گیا ہے وَحَمَلْنٰهُ عَلٰي ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ۔ تَجْرِيْ بِاَعْيُنِنَا ۚ جَزَاۗءً لِّمَنْ كَانَ كُفِرَ۔ وَلَقَدْ تَّرَكْنٰهَآ اٰيَةً فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ (آیات۔ 13 تا 15) " اور ہم نے نوح کو سوار کیا تختوں اور میخوں والی (کشتی) پر، وہ چل رہی تھی ہماری نگرانی میں اس شخص کے لیے جزا کے طور پر جس کا انکار کردیا گیا تھا اور ہم نے اسے چھوڑ دیا ایک نشانی بنا کر، پس ہے کوئی سبق لینے والا ؟ "۔ سورة قمر کی اس آیت کی تفسیر میں ابن جریری نے قتادہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ عہد صحابہ میں جب مسلمان الجزیرہ کے علاقہ میں گئے ہیں تو انہوں نے کوہ جودی پر (اور ایک روایت کی رو سے باقروی نامی بستی کے قریب اس کشتی کو دیکھا ہے۔ موجودہ زمانہ میں بھی وقتا فوقتا یہ اطلاعات اخبارات میں آتی رہتی ہیں کہ کشتی نوح کو تلاش کرنے کے لیے مہمات بھیجی جا رہی ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ بسا اوقات ہوائی جہاز جب کوہستان اراراط پر سے گزرے ہیں تو ایک چوٹی پر انہوں نے ایسی چیز دیکھی ہے جو ایک کشتی سے مشابہ ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ 47، ہود حاشیہ 46)
Top