Ahkam-ul-Quran - Al-Ahzaab : 56
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓئِكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ١ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ : اور اس کے فرشتے يُصَلُّوْنَ : درود بھیجتے ہیں عَلَي النَّبِيِّ ۭ : نبی پر يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو صَلُّوْا : درود بھیجو عَلَيْهِ : اس پر وَسَلِّمُوْا : اور سلام بھیجو تَسْلِيْمًا : خوب سلام
خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں مومنو ! تم بھی پیغمبر پر درود اور سلام بھیجا کرو
صلوٰۃ کا مفہوم نسبت کے لحاظ سے ہے قول باری ہے (ان اللہ وملئکتہ یصلون علی النبی یایھا الذین امنوا صلا علیہ وسلم وا تسلیما۔ بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں اے ایمان والو ! تم بھی آپ ﷺ پر رحمت بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو) اللہ کی طرف سے صلاۃ کے معنی رحمت کے ہیں اور بندوں کی طرف سے دعا کے ہیں۔ اس پر پہلے بھی روشنی ڈالی جاچکی ہے۔ ابوالعالیہ سے مروی ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی ﷺ پر صلاۃ بھیجتے ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺ پر اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے رحمت بھیجتا ہے اور فرشتے آپ کے لئے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس قول سے ان کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو آگاہ کرتا ہے کہ وہ اپنے نبی ﷺ پر رحمت بھیج رہا ہے اور ان پر اپنی نعمت تمام کررہا ہے۔ فرشتوں کے سامنے اللہ کی طرف سے آپ پر صلوٰۃ بھیجنے کا یہی مفہوم ہے۔ حسن سے قول باری (ھوالذی یصلی علیکم وملائکتہ) کی تفسیر میں مروی ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا تھا کہ آیا تمہارا رب نماز پڑھتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس سوال سے بڑا دکھ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی بھیج کر یہ حکم دیا کہ ان سے کہہ دو کہ میں نماز پڑھتا ہوں اور یہ ہی نماز میری وہ رحمت ہے جو میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے۔ درود کا وجوب قول باری ہے (یایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلم وا تسلیما) آیت حضور ﷺ پر درود بھیجنے پر متضمن ہے۔ ظاہر آیت وجوب کا مقتضی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ فرض ہے۔ ایک دفعہ جب انسان نماز یا غیر نماز میں اس کی ادائیگی کرلے گا تو فرض ادا ہوجائے گا۔ اس کی مثال کلمہ توحید اور حضور ﷺ کی نبوت کی تصدیق جیسی ہے کہ اگر انسان اپنی زندگی میں ایک دفعہ ان کی ادائیگی کرے تو فرض ادا ہوجائے گا۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ نماز میں حضور ﷺ پر درود بھیجنا فرض ہے۔ تاہم جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے امام شافعی سے پہلے کسی اہل علم نے یہ بات نہیں کہی امام شافعی کی یہ بات ان آثار وروایات کے خلاف بھی ہے جو حضور ﷺ سے نماز میں درود پڑھنے کے سلسلے میں منقول ہیں۔ ایک روایت حضرت ابن مسعود ؓ سے منقول ہے کہ حضور ﷺ نے انہیں تشہید کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا تھا (اذا فعلت ھذا وقلت ھذا فقد تمت صلوتک ۔ جب تم یہ کرلو یا یہ کہہ لو تو تمہاری نماز مکمل ہوجائے گی) آپ نے مزید فرمایا تھا (فان شئت ان تقوم فقم ۔ پھر اگر تم قیام کرنا چاہو تو قیام کرلو) پھر آپ نے فرمایا (ثم اختر من اطیب الکلام ماشئت۔ پھر پاکیزہ ترین کلام میں سے جو پڑھنا چاہو اس کا انتخاب کرلو) حضرت ابن عمر ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (اذارفع الرجل راسہ من اخر سجدۃ وقعد فاحدث قبل ان یسلم فقد تمت صلوٰۃ۔ جب نمازی آخری سجدے سے اپنا سر اٹھا کر قعدہ کرے اور سلام پھیرنے سے پہلے اسے حدث لاحق ہوجائے تو اس کی نماز مکمل ہوجائے گی۔ ) معاویہ بن الحلم السلمی نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (ان صلوتنا ھذہ لا یصلح شیء من کلام الناس انماھی التسبیح والتھلیل وقراۃ القران ۔ ہماری یہ نماز ایسی ہے کہ اس میں کلام الناس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تو تسبیح وتہلیل اور قرآن کی تلاوت ہوتی ہے) اس روایت میں آپ نے درود کا ذکر نہیں کیا۔ ہم نے مختصر الطحاوی میں اس مسئلے پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ قول باری ہے (وسلموا تسلیما) اس سے امام شافعی کے اصحاب نماز کے آخر میں سلام پڑھنے کی فرضیت پر استدلال کرتے ہیں۔ لیکن آیت میں ان کے قول پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں صلوٰۃ کا ذکر نہیں ہے۔ اس کے متعلق بھی وہی حکم ہے جو آپ پر درود بھیجنے کے متعلق ہم نے بیان کیا ہے۔ امام شافعی کے اصحاب آیت سے تشہد کی فرضیت پر بھی استدلال کرتے ہیں کیونکہ نماز کے اندر حضور ﷺ پر سلام بھیجاجاتا ہے۔ لیکن ان کے اس مسلک پر بھی آیت میں کوئی دلالت نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں حضور ﷺ پر سلام بھیجنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ بلکہ یہاں یہ احتمال ہے اللہ تعالیٰ نے اس فقرے سے حضور ﷺ پر درود بھیجنے کے امر کی تاکید کا ارادہ فرمایا یعنی لوگ درود کے سلسلے میں اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیں جس طرح یہ قول باری ہے (ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجامما قضیت ویسلموا تسلیما۔ پھر وہ آپ کے فیصلے سے اپنے دل میں تنگی محسوس نہ کریں اور پوری طرح اسے تسلیم کرلیں) ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنے نام کا ذکر کیا ہے اور اپنے نبی ﷺ کا ذکر کیا ہے لیکن اپنی ذات کا ذکر حضور ﷺ کے ذکر سے الگ کرکے کیا ہے اور ایک کنایہ کے تحت دونوں اسموں کا اکٹھا نہیں کیا ہے مثلاً یہ قول باری ہے (واللہ ورسولہ احق ان ترضوہ اللہ اور اس کا رسول اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ تم انہیں راضی کرو) یہاں ” ان ترضوھما “ نہیں فرمایا اس لئے کہ اللہ کا نام اور اللہ کے سوا کسی اور کا نام ایک کنایہ کے تحت جمع نہیں ہوسکتے۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص حضور ﷺ کے سامنے تقریر کرنے لگا۔ اس نے دوران تقریر کہا : ” من یطع اللہ ورسولہ فقد رشد ومن یعصھما فقد غویٰ “ آپ نے اسے ٹوک دیا اور فرمایا ” بس کرو آج تم بہت برے خطیب ثابت ہوئے۔ “ اس نے ” یعصھما “ کہا تھا یعنی اللہ اور رسول دونوں کا ایک کنایہ کے تحت ذکر کیا تھا اس لئے آپ نے اسے روک دیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ارشاد باری ہے (ان اللہ وملئکتہ یصلون علی النبی) اللہ تعالیٰ نے اپنا نام اور فرشتوں کا نام ایک ضمیر میں جمع کردیے ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے دونوں کو ایسے کنایہ کے تحت جمع کرنے کا انکار کیا ہے جو ان دونوں کے لئے اسم بنتا ہو۔ مثلاً ھاء جو اسم کے لئے کنایہ ہے لیکن اگر فعل ہو جو نہ اسم ہوتا ہے اور اسم سے کنایہ بلکہ اس میں ضمیر ہوتی ہے تو ایسی صورت میں کوئی امتناع نہیں ہوتا۔ درج بالا آیت کے متعلق ایک قول یہ بھی ہے کہ قول باری (یصلون) ملائکہ کے لئے ضمیر ہے اللہ کیا سم کے لئے نہیں ہے۔ نبی ﷺ پر اللہ کی صلوٰۃ کا مفہوم معنی کی جہت سے سمجھ میں آجاتا ہے جس طرح یہ قول باری ہے (انفضوا الیھا ۔ تجارت کی طرف دوڑ پڑتے ہیں) اس میں کنایہ کو تجارت کی طرف راجع کیا گیا ہے لفظ (لھوا) کی طرف راجع نہیں کیا گیا ہے حالانکہ تجارت کے ساتھ اس کا ذکر بھی موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معنی کی جہت سے لہو کا مفہوم خود بخود سمجھ میں آرہا ہے۔ اسی طرح یہ قول باری ہے (والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ۔ جو لوگ سونا چاندی خزانہ کے طور پر رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ خرچ نہیں کرتے) یہاں جس کنایہ کا ذکر ہوا ہے وہ فضہ یعنی چاندی کی طرف راجع ہے۔ سونے کا مفہوم معنی کی جہت سے خود بخود سمجھ میں آرہا ہے۔
Top