Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 56
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓئِكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ١ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ : اور اس کے فرشتے يُصَلُّوْنَ : درود بھیجتے ہیں عَلَي النَّبِيِّ ۭ : نبی پر يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو صَلُّوْا : درود بھیجو عَلَيْهِ : اس پر وَسَلِّمُوْا : اور سلام بھیجو تَسْلِيْمًا : خوب سلام
خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں مومنو ! تم بھی پیغمبر پر درود اور سلام بھیجا کرو
(33:56) یصلون۔ مضارع جمع مذکر غائب صلی یصلی تصلیۃ (تفعیل) مصدر وہ درود بھیجتے ہیں تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو (33 : 43) ۔ سلموا تسلیما۔ سلموا امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ تسلیم (تفعیل ) مصدر سے تسلیما مصدر منصوب برائے تاکید لایا گیا ہے۔ ای قولوا السلام علیک ایھا النبی جب علی کے صلہ کے ساتھ اس کا استعمال ہو تو اس کا مطلب سلام کرنا یا سلام بھیجنا ہوتا ہے السلم والسلامۃ کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں۔ اور جب السلام بطور یکے از اسما الحسنی استعمال ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے ! سلام بمعنی سلامتی، امان۔ یوذون۔ مضارع جمع مذکر غائب، وہ ایذا دیتے ہیں۔ (1) یوذون اللہ وہ اللہ کو ایذا پہنچاتے ہیں۔ کفرو عصیان کے ارتکاب سے یا اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ کہتے ہیں ید اللہ مغلولۃ (5: 64) اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے المسیح ابن اللہ۔ (9:30) حضرت عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں۔ یا الملئکۃ بنت اللہ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ویجعلون للہ البنات (1 6:57) اور اللہ تعالیٰ کے لئے انہوں نے بیٹیاں قرار دے رکھی ہیں (روایت ہے کہ قریش کے قبائل بنی خزاعہ اور بنی کنانہ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ وغیرہ۔ (2) و (یوذون) رسولہ۔ وہ اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں۔ مثلاً ۔ ان کا نبی کریم ﷺ کو کہنا (1) ام یقولون شاعر نتربص بہ ریب المنون (52:30) کیا یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے اور ہم اس کے بارہ میں حادثہ موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ (2) فذکر فما انت بنعمۃ ربک بکاہن ولا مجنون۔ (52:29) تو (اے پیغمبر) آپ نصیحت کرتے رہیں کیونکہ آپ اپنے پروردگار کے فضل سے نہ تو کاہن ہیں اور نہ مجنون (دیوانے) وغیرہ۔ عذابا مھینا۔ موصوف وصفت رسوا کن عذاب، ذلیل کردینے والا عذاب، نصب بوجہ اعد کے مفعول ہونے کے ہے۔ فائدہ۔ اللہ کو اذیت پہنچانے کے یہ بھی معنی ہیں کہ ایسا فعل کرنا جو اسے ناپسند ہو اور یہ بھی جائز ہے کہ یہاں مراد صرف رسول کو ایذا پہنچانا ہو اور اللہ کا لفظ کمال اتحاد کو ظاہر کرنے کے لئے بڑھا دیا گیا ہے یعنی مقصود کلام ایذا رسول ہے اور اللہ کے نام کے ساتھ عطف رسول کے اعزازو اکرام کے لئے ہے۔
Top