Mazhar-ul-Quran - An-Naml : 56
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓئِكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ١ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ : اور اس کے فرشتے يُصَلُّوْنَ : درود بھیجتے ہیں عَلَي النَّبِيِّ ۭ : نبی پر يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو صَلُّوْا : درود بھیجو عَلَيْهِ : اس پر وَسَلِّمُوْا : اور سلام بھیجو تَسْلِيْمًا : خوب سلام
خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں مومنو ! تم بھی پیغمبر پر درود اور سلام بھیجا کرو
یہ ایسی آیت ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ﷺ کو آپ ﷺ کی حیات اور آپ کی موت کی حالت میں بھی شرف بخشا۔ اللہ کی بارگاہ میں آپ کا جو مقام و مرتبہ ہے اس کا ذکر کیا اور اس کے ساتھ ہر اس آدمی کے برے فعل سے پاکیزہ بنا دیا جس نے آپ ﷺ کے متعلق کوئی سوچ اپنائی، آپ ﷺ کی ازواج مطہرات کے بارے میں بری سوچ اپنائی یا اس طرح کا کوئی معاملہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف جب لفظ صلوۃ کی نسبت کی جائے تو اس سے مراد اس کی رحمت اور رضا ہے، فرشتوں کی طرف جب نسبت ہو تو مراد دعا اور استغفار ہے اور امت کی جانب سے ہو تو دعا اور آپ ﷺ کی امر کی تعظیم ہے۔ مسئلہ : یصلون کی ضمیر کے بارے میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔ ایک فرقہ کا خیال ہے : اس میں ضمیر اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کے لیے ہے (1) ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے قول ہے جس کے ساتھ اس نے اپنے فرشتوں کو شرف بخشا ہے۔ خطیب کے قول میں جو اعتراض ہے وہ اسے لاحق نہیں ہوتا۔ خطیب نے کہا تھا : من یطع اللہ ورسولہ فقد رشد ومن یعصھما فقد غوی رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” تو کتنا برا خطیب ہے (2) ، تو کہہ : ومن یعص اللہ ورسولہ “ اسے صحیح نے نقل کیا ہے۔ علماء نے کہا : کسی ایک کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کو ایک ضمیر میں غیر کے ساتھ جمع کرے اور اللہ تعالیٰ جیسے چاہے کرے۔ ایک جماعت نے کہا : کلام میں حذف ہے۔ اس کی تقدیر ہے : ان اللہ یصلی وملائکتہ یصلون آیت میں ضمیر کا اجتماع نہیں انسان کے لیے ایسا کرنا جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس معنی کی بنا پر بئس الخطیب انت نہیں فرمایا حضور ﷺ نے اسے یہ اس لیے فرمایا کیونکہ خطیب نے ومن یعصھما پر سکتہ کیا تھا۔ انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا جس ابو دائود نے حضرت عدی بن حاتم سے روایت نقل کی ہے کہ ایک خطیب نے نبی کریم ﷺ کے ہاں خطبہ دیا۔ اس نے کہا : من یطع اللہ ورسولہ ومن یعصھما فرمایا یا کہا :” جا تو کتنا بڑا خطیب ہے “ (3) مگر یہ احتمال رکھتا ہے کہ جب اس نے وقفہ میں خطا کی تو حضور ﷺ نے اسے فرمایا : بئس الخطیب اس کے بعد اس کی تمام کلام کی اصلاح کی، فرمایا : کہہ ومن یعص اللہ ورسولہ جس طرح مسلم کی کتاب میں ہے۔ یہ پہلے قول کی تائید کرتی ہے کہ اس نے ومن یعصھما پر وقف نہیں کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے پڑھا وملائکتہ یعنی رفع کے ساتھ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا عطف ان کے داخل ہونے سے پہلے لفظ اللہ اسم جلالت کے محل کے اعتبار سے ہے۔ جمہور نے اسے نصب دی ہے اس کا عطف لفظ اللہ اسم جلالت پر ہے جو مکتوب ہے۔ آیت یایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلم وا تسلیما اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے نبی حضرت محمد ﷺ پر درود پڑھیں دوسرے انبیاء کے بارے میں ایسا حکم نہیں مقصد آپ ﷺ کی شرافت کو ظاہر کرنا تھا۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں زندگی میں ایک دفعہ درود شریف پڑھنا فرض ہے۔ اور ہر لمحہ ایسے واجبات میں سے ہے جو سنن موکدہ کی طرح واجب ہو۔ جس کے ترک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں اور اس سے غافل نہیں ہوتا مگر وہی شخص جس میں کوئی خیر نہ ہو۔ زمحشری نے کہا : اگر تو کہے کہ کیا رسول اللہ ﷺ پر درود پر ھنا واجب ہے یا مستحب ؟ میں جواب دوں گا : واجب۔ اس کے وجوب کے حال میں اختلاف ہے۔ ان میں سے کچھ علماء تو ایسے ہیں جو اس کو واجب قرار دیتے ہیں جب بھی آپ ﷺ کا ذکر ہو۔ حدیث طیبہ میں ہے : ” جس کے ہاں میر اذکر کیا گیا تو اس نے مجھ پر درود نہ پڑھا تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمتوں سے دور کرے “ (1) ۔ یہ روایت کی جاتی ہے کہ آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کی گئی : یا رسول اللہ ! ﷺ اللہ تعالیٰ کے فرمان : ان اللہ وملئکتہ یصلون علی النبی کے بارے میں بتائیے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” یہ پوشیدہ علم میں سے ہے اگر تم مجھ سے اس بارے میں سوال نہ کرتے میں تمہیں اس کے بارے میں نہ بتاتا۔ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے دو فرشتے مقرر کیے ہیں کسی مسلمان کے ہاں میرا ذکر نہیں کیا جاتا مگر وہ مجھ پر درود پڑھتا ہے تو وہ فرشتے کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ تجھے بخشے۔ اللہ اور اس کے فرشتے ان کے جواب میں کہتے ہیں : آمین۔ اور میرا کسی بندہ مسلم کے پاس ذکر نہیں کیا جاتا اور وہ مجھ پر درود نہیں پڑھتا مگر وہ دو فرشتے کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ تجھے نہ بخشے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے ان فرشتوں کے جواب میں کہتے ہیں : آمین “ (2) ۔ علماء میں سے کچھ نے کہا : ہر مجلس میں ایک دفعہ درود پڑھنا واجب ہے، اگرچہ آپ کا ذکرمکرر ہو، جس طرح آیت سجدہ اور چھینک مارنے والے کے جواب میں ہے، اسی طرح ہر دعا کے اول اور آخر میں درود پڑھنا واجب ہے (3) ۔ ان علماء میں سے کچھ وہ ہیں جنہوں نے عمر میں اسے واجب کیا ہے، اسی طرح شہادتین کے اظہار میں بھی کہا۔ احتیاط جس امر کا تقاضا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی حضور ﷺ کا ذکر کیا جائے درود پڑھنا واجب ہے، کیونکہ اس بارے میں احادیث وارد ہیں۔ مسئلہ نمبر 2۔ نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں درود پڑھنے کی کیفیت میں اختلاف ہے۔ امام مالک نے حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے جب کہ ہم حضرت سعد بن عبادہ کی مجلس میں تھے حضرت بشیر بن سعد نے آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کی : یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ ﷺ کی بارگاہ میں درود بھیجیں۔ ہم کس طرح آپ ﷺ کی بارگاہ میں درود بھیجیں ؟ حضور ﷺ خاموش ہوگئے یہاں تک کہ ہم نے تمنا کی کہ کاش وہ سوال نہ کرتا پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کہو اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم وبارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم فی العالمین انک حمید۔ سلام کو تم جانتے ہو (1) ۔ امام نسائی نے حضرت طلحہ سے اس کی مثل روایت نقل کی ہے اس میں فی العالمین کے الفاظ ساقط کیے ہیں۔ اسی طرح والسلام کما قد علمتم کو بھی ساقط کیا ہے۔ اس باب میں کعب بن عجرہ، ابی حمیدساعدی، حضرت ابو سعید خدری، حضرت علی شیر خدا ؓ ، حضرت ابوہریرہ ؓ ، حضرت برید خزاعی، حضرت زید بن خارجہ، ابن حارث بھی کہا جاتا ہے سے روایت مروی ہے۔ ائمہ اہل حدیث نے ان روایات کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ امام ترمذی نے حضرت کعب بن ابی عجرہ کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت ابو حمید ساعدی کی روایت نقل کی ہے۔ ابو عمر نے کہا : شعبہ اور ثوری نے حکم بن عبد الرحمن بن ابی لیلی اور وہ حضرت کعب بن عجرہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا فرمان : یا یھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلم وا تسلیما نازل ہوا۔ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ آپ کی بارگاہ میں سلام کرنے کو تو ہم نے پہچان لیا ہے تو درود کیسے ہے ؟ ﷺ فرمایا : کہو اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم وبارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید (2) ۔ یہ الفاظ ثوری کی حدیث کے ہیں شعبہ کی حدیث کے نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے فرمان : آیت ان اللہ وملئکتہ یصلون علی النبی یایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلم وا تسلیما کی تفسیر ہے۔ اس امر کو واضح کیا کہ آپ ﷺ کی بارگاہ میں درود کیسے پڑھنا ہے اور التحیات میں انہیں سلام پڑھنا سکھایا وہ یہ قول ہے : السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ (3) ۔ مسعودی نے عون بن عبداللہ سے وہ ابو فاختہ سے وہ اسود سے وہ حضرت عبداللہ سے روایت نقل کرتے ہیں۔ کہ فرمایا : جب تم نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں درود پڑھو تو اچھی طرح درود شریف پڑھو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ اسے آپ کا بارگاہ میں پیش کیا جائے گا۔ لوگوں نے عرض کی : ہمیں اس کی تعلیم دو ، کہا : کہواللھم اجعل صلواتک ورحمتک وبرکاتک علی سید المرسلین و امام المتقین وخاتم النبیین محمد عبدک ونبیک ورسولک امام الخیر وقائد الخیر و رسول الرحمۃ اللھم ابعثہ مقاما محمودا یقبطہ بہ الاولون والاخرون۔ (4) ۔ اے اللہ ! اپنی عنایات، اپنی رحمت اور اپنی برکات سید المرسلین، متقین کے امام، خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ جو تیرے بندے، تیرے نبی، تیرے رسول، خیر کے امام، خیر کے قائد اور رحمت کے رسول ہیں ان پر کر۔ اے اللہ ! آپ ﷺ کے مقام محمود پر مبعوث فرما جس کی وجہ سے اگلے پچھلے آپ پر رشک کریں۔ اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجیدہ میں قاضی عیاض کی کتاب ” الشفا “ (5) میں حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے متصل سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے کہا : انہیں رسول اللہ ﷺ نے میرے ہاتھوں پر شمار کیا اور کہا : انہیں جبریل امین نے میرے ہاتھوں پر شمار کیا اور کہا اسی طرح رب العزت کے ہاں یہ نازل ہوئے۔ اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید۔ اللھم وترحم علی محمد وعلی آل محمد کما ترحمت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید اللھم تحنن علی محمد وعلی آل محمد کما تحننت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید۔ ابن عربی نے کہا : ان روایات میں سے کچھ صحیح ہیں اور کچھ کمزور ہیں۔ ان میں سے صحیح ترین روایت وہ ہے جسے امام مالک نے روایت کیا ہے اسی پر اعتماد کیا ہے اسی پر اعتماد کرو (1) ۔ امام مالک کے علاوہ روایت میں الصلوۃ کے علاوہ رحمت کے الفاظ زائد ہیں اور اس روایت کے علاوہ کوئی قوی روایت نہیں۔ لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی دینی امور میں غورو فکر کریں جس طرح وہ اپنے اموال میں غورو فکر کرتے ہیں وہ بیع میں عیب والا دینار نہیں لیتے، وہ پاکیزہ اور سالم دینار لیتے ہیں، اسی طرح نبی کریم ﷺ سے ایسی روایات ہی لینی چاہئیں جن کی سند صحیح ہو۔ تاکہ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ کی کوئی صورت نہ بنے۔ بعض اوقات وہ فضیلت کا طالب ہوتا ہے تو وہ نقص کا پا لیتا ہے بلکہ بعض اوقات وہ واضح خسارہ پا لیتا ہے۔ مسئلہ نمبر 3۔ درود شریف کی فضیلت نبی کریم ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” جس نے مجھ پر ایک دفعہ درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر اس کی وجہ سے دس دفعہ رحمتیں نازل فرماتا ہے “ (2) ۔ حضرت سہل بن عبد اللہ نے کہا : حضرت محمد ﷺ پر درود پڑھنا عبادت میں سے افضل عبادت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں نے اس امر کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے، پھر اس کے بارے میں مومنوں کو حکم دیا۔ تمام عبادات اس طرح نہیں۔ ابو سلیمان دارانی نے کہا : جو اللہ تعالیٰ سے کسی حاجت کے سوال کرنے کا ارادہ کرے تو وہ نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں درود پڑھنے سے آغاز کرے پھر اپنی حاجت کا سوال کرے پھر اس کا اختتام بھی درود پر کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ دونوں درود قبول فرماتا ہے۔ وہ اس سے زیادہ کریم ہے کہ درمیان والے کو رد کردے۔ سعید بن مسیب نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت نقل کی ہے فرمایا : دعا کو آسمان کے نیچے سے روک دیا جاتا ہے یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ پر درود پیش کیا جائے (3) ۔ جب نبی کریم ﷺ پر درود آجاتا ہے تو دعا کو اوپر اٹھا لیا جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” جس نے کتاب میں مجھ پر درود شریف پڑھا تو فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے رہیں گے جب تک میرا نام اس کتاب میں موجود رہے گا “ (4) مسئلہ نمبر 4۔ نماز میں نبی کریم ﷺ پر درود پڑھنے کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے۔ جس پر جم غفیر اور جمہور کثیر ہے وہ یہ ہے کہ یہ نماز کی سنت اور اس کا مستحب ہے۔ ابن منذر نے کہا : مستحب یہ ہے کہ کوئی آدمی نماز نہ پڑھے مگر اس میں رسول اللہ ﷺ پر درود پڑھے۔ اگر کوئی درود کو ترک کردے تو امام مالک، اہل مدینہ، سفیان ثوری، اصحاب الرائے میں سے اہل کوفہ اور دوسرے علماء کے نزدیک نماز جائز ہے، اہل علم میں سے کثیر لوگوں کا یہ قول ہے۔ امام مالک اور سفیان سے یہ مروی ہے کہ آخری تشہد میں یہ مستحب ہے اور تشہد میں درود کو ترک کرنے والا گناہگار ہوگا۔ امام شافعی نے الگ رائے قائم کی آپ نے نماز میں درود ترک کرنے والے پر اعادہ کو واجب کیا ہے۔ اسحاق نے نماز کے اعادہ کو واجب کیا ہے جب کہ وہ جان بوجھ کر درود کو ترک کرے بھول کر نہ چھوڑے۔ ابو عمر نے کہا : امام شافعی نے کہا : جب نمازی آخری تشہد میں تشہد کے بعد اور سلام سے پہلے درود نہ پڑھے تو وہ نماز کا اعاوہ کرے۔ کہا : اگر اس نے تشہد سے پہلے درود پڑھا تو یہ اس کے لیے جائز نہیں۔ یہ وہ قول ہے جو حرملہ بن یحییٰ نے ان سے نقل کیا ہے۔ اس قسم کی روایت امام شافعی سے نہیں پائی جاسکتی مگر حرملہ سے پائی جاسکتی ہے۔ یہ امام شافعی کے کبار شاگردوں میں سے ہیں جنہوں نے امام شافعی کی کتب لکھی ہیں۔ امام شافعی کے اصحاب نے اس کو اپنایا، اس کی طرف مائل ہوئے اور اس پر غور و فکر کیا ان کے نزدیک یہی ان کے مذہب کا خلاصہ ہے۔ امام طحاوی نے گمان کیا ہے : ان کے علاوہ کسی اہل علم نے ایسا قول نہیں کیا۔ خطابی نے کہا جب کہ وہ امام شافعی کے اصحاب میں سے ہے یہ نماز میں واجب نہیں۔ یہ فقہا کی جماعت کا قول ہے مگر امام شافعی اس میں شامل نہیں۔ اس امر پر دلیل کہ یہ نماز کے فرائض میں سے ہے وہ امام شافعی سے قبل سلف صالحین کا عمل اور ان کا اجماع ہے۔ اس مسئلہ میں امام شافعی پر سخت گرفت کی گئی ہے۔ یہ حضرت ابن مسعود ؓ کا تشہد ہے جسے امام شافعی نے اپنایا نبی کریم ﷺ نے اس کی تعلیم دی ہے۔ اس میں نبی ﷺ پر درود نہیں۔ اسی طرح ہر وہ راوی جس نے نبی کریم ﷺ سے تشہد روایت کیا ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا : حضرت ابوبکر صدیق ؓ منبر پر بیٹھ کر تشہد کی تعلیم دیا کرتے تھے، جس طرح تم بچوں کو کتاب کی تعلیم دیتے ہو۔ حضرت عمر ؓ نے بھی منبر پر تشہد کی تعلیم دی۔ اس میں نبی کریم ﷺ پر درود کا ذکر نہیں۔ میں کہتا ہوں : ہمارے اصحاب میں سے محمد بن مواز نے نماز میں نبی کریم ﷺ پر درود کے واجب ہونے کا قول کیا ہے جو ابن قصار اور عبد الوہاب نے ذکر کیا ہے۔ ابن عربی نے حدیث صحیح کی وجہ سے اسے اختیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم آپ کی بارگاہ میں درود پڑھیں تو ہم کیسے آپ کی بارگاہ میں درود پڑھیں (1) ؟ حضور ﷺ نے درود اور اس کا وقت بتایا تو درود کیفیت اور وقت کے اعتبار سے متعین ہوگیا۔ دار قطنی نے ابی جعفر محمد بن علی بن حسین سے یہ قول ذکر کیا ہے : اگر میں ایسی نماز پڑھوں جس میں میں نبی کریم ﷺ پر درود نہ پڑھوں اور نہ ہی آپ کے اہل بیت پر درود پڑھوں تو میں یہ خیال کرتا ہوں کہ وہ نماز مکمل نہیں۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے ایک مرفوع روایت مروی ہے ؛ صحیح یہ ہے کہ یہ ابو جعفر کا قول ہے یہ دارقطنی نے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر 5۔ ( آیت) وسلم وا تسلیما قاضی ابوبکر بن بکیر نے کہا : یہ آیت نبی کریم ﷺ پر نازل ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اس میں نبی کریم ﷺ کے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ آپ کی بارگاہ میں سلام پیش کریں۔ اسی طرح جو بعد کے مسلمان ہیں ان کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ آپ کی بارگاہ میں سلام پیش کریں جب وہ آپ کی قبر پر حاضر ہوں اور جب آپ ﷺ کا ذکر کیا جائے۔ امام نسائی نے عبد اللہ بن ابی طلحہ سے وہ اپنے باپ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن تشریف لائے جب کہ خوشی آپ کے چہرے سے عیاں تھی۔ میں نے عرض کی : ہم آپ کے چہرے پر خوشی دیکھتے ہیں۔ فرمایا : ” میرے پاس ایک فرشتہ آیا ہے، اس نے کہا : اے محمد ! آپ کا رب ارشاد فرماتا ہے کیا آپ کو یہ بات راضی نہیں کرتی کہ کوئی بندہ آپ پر درود نہیں پڑھے گا مگر میں اس پر دس دفعہ کرم فرمائوں گا۔ کوئی آپ پر ایک دفعہ سلام عرض نہیں کرے گا مگر میں اس پر دس دفعہ سلام بھیجوں گا “ (1) ۔ محمد بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا (رح) : ” جب میرا وصال ہوجائے گا تو تم میں سے کوئی مجھ پر سلام پیش نہیں کرے گا مگر اس کا سلام جبریل امین کے ساتھ میرے پاس آئے گا۔ جبریل امین کہیں گے : اے محمد ! ﷺ یہ فلاں ابن فلاں ہے جو آپ ﷺ کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہے۔ میں جواب میں کہوں گا : وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ “۔ امام نسائی نے حضرت عبد اللہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” بیشک اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو زمین میں سیاحت کرتے ہیں، وہ میری امت کی جانب سے سلام عرض کرتے ہیں “ (2) ۔ قشیری نے کہا : سلام تیرا یہ قول ہے : سلام علیک۔
Top