Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 56
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓئِكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ١ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ : اور اس کے فرشتے يُصَلُّوْنَ : درود بھیجتے ہیں عَلَي النَّبِيِّ ۭ : نبی پر يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو صَلُّوْا : درود بھیجو عَلَيْهِ : اس پر وَسَلِّمُوْا : اور سلام بھیجو تَسْلِيْمًا : خوب سلام
بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ نبی پر رحمت بھیجتے ہیں، اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو تم بھی ان پر درودوسلام بھیجو
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَـہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یٰٓـاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔ (الاحزاب : 56) (بےشک اللہ اور اس کے ملائکہ نبی پر رحمت بھیجتے ہیں، اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو تم بھی ان پر درودوسلام بھیجو۔ ) آیت کا شان ورود سورة الاحزاب غزوہ احزاب کے بعد نازل ہوئی۔ اور ہم یہ پڑھ چکے ہیں کہ غزوہ احزاب درحقیقت جزیرہ عرب کی متحدہ طاقتوں کا ایک فیصلہ کن غزوہ تھا جس میں وہ مسلمانوں کے مکمل استیصال کا عزم صمیم کرکے آئے تھے۔ چناچہ ایک عظیم افرادی قوت اور تمام دشمنوں کے مسلمانوں کے استیصال پر مکمل اتحاد نے مدینہ منورہ کے اندر رہنے والے منافقین کو کھل کھیلنے کا موقع مہیا کردیا تھا۔ حالات پر نظر رکھنے والی ہر نگاہ دیکھ رہی تھی کہ مسلمانوں کی قسمت ترازو میں ہے۔ پلڑا کسی وقت بھی جھک سکتا ہے۔ مسلمان اپنی بقاء کی فیصلہ کن کشمکش میں مصروف تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت اور وعدے کے مطابق مسلمانوں کو اس عظیم ابتلاء میں سرخرو فرمایا۔ اور دشمن اپنا زخم چاٹتا ہوا میدان سے بھاگ نکلا۔ اب مارآسین قسم کے دشمنوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا کہ وہ مدینے کے اندر بیٹھ کر الزامات و اتہامات کے ذریعے مسلمانوں کے شیرازے کو بکھیرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺ شخصیت کو مجروح کرکے دلوں میں بدگمانیوں کی فصل اگانے کی کوشش کریں، تاکہ جس مرکز کے گرد مسلمان پروانوں کی طرح فدا ہورہے ہیں اس مرکز کو کمزور کردیا جائے۔ چناچہ ان فتنوں کے سدباب کے لیے ایک طرف مسلمانوں کی شیرازہ بندی کو مستحکم کرنے کے لیے اسلامی معاشرت کے وہ آداب سکھائے گئے جن کا گزشتہ آیات میں ذکر کیا گیا۔ اور ساتھ ہی ساتھ آنحضرت ﷺ کی شخصیت سے والہانہ تعلق اور گہری وابستگی پیدا کرنے کے لیے پیش نظر آیت کریمہ میں آپ ﷺ کے مقام و مرتبہ کو واضح فرمایا گیا اور مسلمانوں کو ایک ایسی چیز کی تعلیم دی گئی جس سے دلوں میں نبی کریم ﷺ کی محبت کو بیش از بیش راسخ ہونے کا موقع مل سکتا ہے۔ ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ نبی کریم ﷺ کے مقام و مرتبہ کو کم کرنے کے لیے اور لوگوں کے دلوں میں بدگمانیاں پیدا کرنے کے لیے ان کی ذات گرامی اور ان کے اہل خانہ کے بارے میں عجیب و غریب بدگمانیاں پیدا کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کی ذات اس قدر دلآویز اور اس قدر عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی خود اس پر درودوسلام بھیجتے ہیں۔ اندازہ کیجیے کہ جس ذات پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت برستی ہو اور فرشتے جو کائنات کا نظم و نسق چلاتے ہیں ہمیشہ اس کے لیے دعا گو رہتے ہوں، کوئی ہزار کوشش کرے کبھی اس کی عزت و حرمت کو گہنانے اور کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ مسلمانوں کے دلوں میں اس تعلق کو مستحکم کرنے اور آنحضرت ﷺ کی ذات کے ساتھ والہانہ تعلق کو پیدا کرنے کے لیے حکم دیا گیا ہے کہ اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو مسلسل اللہ تعالیٰ کے رسول پر درودوسلام بھیجتے رہو۔ کیونکہ انھیں کی ذات سے تمہیں ہدایت کا فیض پہنچا ہے۔ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے کہ آنحضرت ﷺ کے واسطے سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان تاریکیوں سے نکالا۔ تم بداخلاقی کی دلدل میں دھنسے جارہے تھے کہ اس نے تمہیں اٹھایا اور مکارمِ اخلاق کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اہل عرب کو کوئی شخص عزت کی نگاہ سے دیکھنا پسند نہ کرتا تھا۔ لیکن آپ کی تعلیم و تربیت نے انھیں نہ صرف حکومت و ریاست میں برتری عطا فرمائی بلکہ علم و حکمت، انسانی اقدار، اخلاقِ عالیہ اور انسانی تہذیب و تمدن میں دنیا کا امام بنادیا۔ جس عظیم شخصیت کے تم پر اس قدر احسانات ہیں دنیا اگر اس پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کررہی ہے تو تمہاری احسان شناسی کا تقاضا یہ ہے کہ تم اپنی محبت و عقیدت اور وفاداری و وفاشعاری سے دنیا پر آپ کی عظمت کا سکہ بٹھا دو ۔ اور درودوسلام کے ذریعے ان کی عزت و عظمت کو اس طرح اجالو کہ جتنے بدخواہ اور دشمن ہیں ان کو اندازہ ہوجائے کہ آنحضرت ﷺ کے چاہنے والے کتنی بڑی تعداد میں ہیں جن کی موجودگی میں آپ ﷺ کی عزت کو بٹہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اس آیت میں مسلمانوں کو دو چیزوں کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک صلوٰۃ کا اور دوسرا سلام کا۔ صلوٰۃ کا مفہوم صلوٰۃ… عربی زبان میں چند معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ رحمت، دعا اور مدح وثناء۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے مراد رحمت نازل کرنا ہوتا ہے۔ اور جب فرشتوں کی طرف ہو تو اس کا معنی آپ کے لیے دعا کرنا ہے۔ اور جب عام مومنین کی طرف ہو تو پھر صلوٰۃ کا مفہوم دعا اور مدح وثناء کا مجموعہ ہے۔ عام مفسرین نے یہی معنی لکھے ہیں۔ لیکن امام بخاری نے ابوالعالیہ سے یہ نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صلوٰۃ سے مراد آپ کی تعظیم اور فرشتوں کے سامنے مدح وثناء ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی تعظیم دنیا میں تو یہ ہے کہ آپ کو بلند مرتبہ عطا فرمایا کہ اذان و اقامت وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر شامل کرلیا گیا۔ اور مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دین کو دنیا بھر میں پھیلایا اور غالب کیا۔ اور آپ کی شریعت پر عمل قیامت تک جاری رکھا۔ اور ساتھ ہی ساتھ آپ کی شریعت کو محفوظ رکھنے کا ذمہ خود پروردگار نے لے لیا۔ اور آخرت میں آپ کی تعظیم یہ ہے کہ آپ کا مقام تمام خلائق سے بلندوبالا کیا۔ اور آپ کو شفاعتِ کبریٰ کا مقام عطا فرمایا اور اسی کو مقام محمود بھی کہا جاتا ہے۔ صلوٰۃ وسلام کا طریقہ صحیح بخاری و مسلم وغیرہ سب کتب حدیث میں یہ حدیث آئی ہے کہ حضرت کعب بن عجرہ ( رض) نے فرمایا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ اس آیت میں ہمیں دو چیزوں کا حکم دیا گیا ہے صلوٰۃ اور سلام۔ صلوٰۃ کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہوچکا۔ جیسے نماز میں السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مگر آپ پر صلوٰۃ بھیجنے کا طریقہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ یہ الفاظ کہا کرو۔ اللھم صل علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابرٰھیم وعلی ال ابرٰھیم انک حمیدمجید اللھم بارک علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابرٰھیم وعلی ال ابرٰھیم انک حمید مجید۔ اسی طرح اور بھی متعدد صحابہ کرام ( رض) نے آنحضرت ﷺ سے بہت خفیف فرق کے ساتھ یہی درود روایت کیا ہے۔ ان تمام روایات میں الفاظ کے خفیف فرق کے باوجود معنی میں کوئی فرق نہیں۔ ان میں جو اہم نکات ذکر فرمائے گئے ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔ 1 آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو جو درود پڑھنے کا طریقہ سکھایا ہے ان میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ پر براہ راست درود پڑھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے کہ وہ نبی کریم ﷺ پر درود بھیجے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی شخص کیسے بھی اخلاص کے ساتھ آنحضرت ﷺ پر درود بھیجے وہ کبھی بھی اس کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ کیونکہ درود بھیجنے کا مطلب آپ کے مراتب کو بلند کرنا ہے۔ آپ نے جو نوع انسانی پر احسانات کیے ہیں ان کا اجر دینا، آپ کے ذکر کو بلند کرنا اور آپ کے دین کو فروغ دینا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم ان میں سے کوئی کام بھی نہیں کرسکتے۔ اور اگر تھوڑا بہت کر بھی سکیں تو اس کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق چاہیے۔ اسی طرح یہ بات بھی اللہ تعالیٰ ہی سے دعا کرنے کی ہے کہ حضور ﷺ کی محبت و عقیدت ہمارے دل میں پیدا فرما دے اور درود پڑھنے سے یہ بھی مقصود ہے۔ 2 آنحضرت ﷺ نے امت کو جو درود سکھایا ہے اس میں صرف اپنی ذات کو مخصوص نہیں فرمایا بلکہ اپنے ساتھ اپنی آل، ازواج اور ذُرِّیت کو بھی شامل فرمایا۔ آل سے مراد وہ سب لوگ ہیں جو اخلاص کے ساتھ آپ کی پیروی کرتے ہیں اور آپ کے طریقے پر چلتے ہیں۔ وہ چاہے آپ کی اولاد میں سے ہوں اور چاہے رنگ و نسل اور خاندان کے اعتبار سے آپ سے دور کا بھی تعلق نہ ہو۔ ابوجہل اور ابولہب اور کفارِقریش آپ کی آل نہیں، حالانکہ وہ آپ کے رشتہ دار ہیں۔ لیکن حضرت بلال ( رض) ، حضرت صہیب ( رض) اور حضرت حسن ( رض) جو آپ سے رنگ و نسل کا رشتہ بھی نہیں رکھتے وہ اتباع کی وجہ سے آپ کی آل ہیں۔ صلوٰۃ وسلام سے چند احتیاطی ہدایات صلوٰۃ وسلام سے متعلق چند باتیں ذہن نشین رکھنا بہت ضروری ہیں۔ مثلاً جمہور فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب کوئی آنحضرت ﷺ کا ذکر کرے یا سنے تو اس پر درودشریف واجب ہوجاتا ہے۔ کیونکہ حدیث میں آپ کے ذکرمبارک کے وقت درودشریف نہ پڑھنے پر وعید آئی ہے۔ جامع ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رغم انف رجل ذُکِرتُ عندہ فلم یصل علیَّ ” ذلیل ہو وہ شخص جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔ اسی طرح اگر ایک مجلس میں آپ کا ذکرمبارک بار بار آئے تو صرف ایک مرتبہ درود پڑھنے سے واجب ادا ہوجاتا ہے، لیکن مستحب یہ ہے کہ جتنی بار ذکر مبارک خود کرے یا کسی سے سنے ہر دفعہ درودشریف پڑھے۔ جس طرح زبان سے ذکرمبارک کے وقت زبانی صلوٰۃ وسلام واجب ہے، اسی طرح قلم سے لکھنے کے وقت صلوٰۃ وسلام کا قلم سے لکھنا بھی واجب ہے۔ اور اس میں جو لوگ حروف کا اختصار کرکے ” صلعم “ لکھ دیتے ہیں یہ کافی نہیں، پورا صلوٰۃ وسلام لکھنا چاہیے۔ یہ بھی یاد رہے کہ لفظ صلوٰۃ انبیاء (علیہم السلام) کے سوا کسی کے لیے استعمال کرنا جمہور علماء کے نزدیک جائز نہیں۔ امام بیہقی نے اپنے سنن میں حضرت ابن عباس ( رض) کا یہ فتویٰ نقل کیا ہے لایصلی علی احد الا علی النبی ﷺ لکن یدعی للمسلمین والمسلمات بالاستغفار۔ امامِ شافعی کے نزدیک غیرنبی کے لیے لفظ صلوٰۃ کا استعمال مستقلاً مکروہ ہے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا بھی یہی مذہب ہے۔ البتہ تبعاً جائز ہے۔ یعنی آنحضرت ﷺ پر صلوٰۃ وسلام کے ساتھ آل و اصحاب یا تمام مومنین کو شریک کریں اس میں مضائقہ نہیں۔ اور امام جوینی نے فرمایا کہ جو حکم لفظ صلوٰۃ کا ہے وہی لفظ سلام کا ہے۔ یعنی غیرنبی کے لیے اس کا استعمال بھی درست نہیں۔ بجز اس کے کہ کسی کو خطاب کرنے کے وقت بطور تحیہ کے السلام علیکم کہے، یہ جائز و مسنون ہے مگر کسی غائب کے نام کے ساتھ (علیہ السلام) کہنا اور لکھنا غیرنبی کے لیے درست نہیں۔ (خصائص کبریٰ سیوطی۔ ص 263، ج 4)
Top