Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 148
لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا
لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا اللّٰهُ : اللہ الْجَهْرَ : ظاہر کرنا بِالسُّوْٓءِ : بری بات مِنَ الْقَوْلِ : بات اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس ظُلِمَ : ظلم ہوا ہو وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ سَمِيْعًا : سننے والا عَلِيْمًا : جاننے والا
خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
مظلوم کی آہ سے بچو قول باری ہے لایحب اللہ الجھربالتوء من القول الامن ظلم، اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے، الا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو۔ حضرت ابن عباس ؓ اور قتادہ کا قول ہے ” الایہ کہ مظلوم اپنے ظالم کے لئے بددعا کرے “۔ مجاہد سے ایک روایت ہے ” الایہ کہ مظلوم ظالم کی طرف سے ڈھائے جانے والے ظلم کی لوگوں کو اطلاع دے “۔ حسن اور سدی کا قول ہے ” الایہ کہ مظلوم ظالم سے اپنا بدلہ لے لے “۔ فرات بن سلیمان نے ذکر کیا ہے کہ عبدالکریم سے اس قول باری کے معنی پوچھے گئے تو انہوں نے کہا ” یہ وہ شخص ہے جو تمہیں برا بھلا کہتا ہے اور جواب میں تم بھی اسے برا بھلا کہہ دیتے ہو لیکن اگر وہ تمہارے خلاف افتراپردازی کرے تو تم اس کے خلاف افترا پردازی نہ کرو۔ یہ آیت اس قول باری کی طرح ہے ولمن انتصوبعدظلمہ۔ اور وہ شخص جس پر ظلم ہوا ہو اور وہ اپنا بدلہ لے لے) ابن عیینہ نے ابن ابی نجیع سے انہوں نے ابراہیم بن ابی بکر سے اور انہوں نے مجاہد سے اس قول باری کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ اس کا تعلق مہمانداری سے ہے۔ تم ایک شخص کے پاس جائو اور وہ تمہاری مہمانداری نہ کرے تو تمہیں اس کے متعلق اپنی زبان کھولنے کی رخصت ہے۔ مجاہد کے اس قول پر ابوبکر حبصاص تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر آیت کی یہ تاویل ہے جس کا مجاہد نے ذکر کیا ہے تو ممکن ہے کہ اس کا تعلق اس زمانے سے ہو جب مہمانداری واجب ہوتی تھی حضور ﷺ سے یہ مروی ہے کہ الضیافۃ ثلاثہ ایام نماز ادفھوصدقۃ مہمانداری تین دنوں تک ہوتی ہے اس سے جو زائد ہو وہ صدقہ ہے) یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا تعلق اس شخص سے ہو جس کے پاس کھانے کے لئے کچھ بھی نہ ہو اور کسی اور سے اسے مہمان بنا لینے کی درخواست کرے لیکن وہ اس کی درخواست قبول نہ کرے اور اسے اپنا مہمان نہ بنائے اس شخص کا یہ رویہ قابل مذمت ہے اور اس میں اس کے خلاف شکوہ کرنے کی اجازت ہے۔ آیت میں اس پر بھی دلالت موجود ہے کہ جو شخص کسی ایسے شخص کے متعلق برے کلمات کہے جس کی ظاہری حالت میں بھلائی اور پردہ پوشی موجود ہو۔ اسے اس طرز عمل سے روکنا اور اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کرنا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت کے ذریعے یہ خبردی ہے کہ اسے یہ بات ناپسند ہے اور جو بات اللہ کو ناپسند ہوتی ہے اللہ اس کا ارادہ نہیں کرتا۔ اس لئے ہم پر بھی واجب ہے کہ ہم اس بات کو ناپسند کریں اور اس سے روکیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے الامن ظلم۔ اس لئے جب تک کسی کا ظلم ہمارے سامنے ظاہر نہ ہوجائے اس وقت تک ہم پر یہ فرض ہے کہ اس کے متعلق برے کلمات کو ناپسند کریں اور اس سے روکیں۔ قول باری ہے فبظلم من الذین ھادواحرمنا علیھم طیبات احلت لھم۔ غرض ان یہودی بن جانے والوں کے اسی ظالمانہ رویہ کی بنا پر ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کردیں جو پہلے ان کے لئے حلال تھیں) ۔ قتادہ کا قول ہے کہ ان کے ظلم اور بغاوت کی انہیں یہ سزا دی گئی ہے کہ ان پر بہت سی چیزیں حرام کردی گئی ہیں اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ شرعی تحریم کے ذریعے ان کی ابتلاء اور آزمائش میں اور زیادہ سختی اور شدت پید ا کردی گئی تھی یہ سب کچھ ان کے ظلم کی سزا کے طور پر تھی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ خبر دی کہ اس نے ان کے ظلم نیز اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنے کی سزا کے طور پر ان پر بہت سی پاک چیزیں حرام کردیں۔ اس کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کی ہے کہ (وعلی الذین ھادوا حرمنا علیھم کل ذی ظفر ومن البقروالغنم حرمنا علیھم شحومھما الا ماحملت ظھورھما اوالحوایا اوما ختلط بعضم ذلک جزیناھم ببعیھم۔ ) جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے تھے اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجز اس کے جو ان کی پیٹھ یا ان کی آنتوں سے لگی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے۔ یہ ہم نے ان کی سرکشی کی سزا انہیں دی تھی۔
Top