Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 148
لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا
لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا اللّٰهُ : اللہ الْجَهْرَ : ظاہر کرنا بِالسُّوْٓءِ : بری بات مِنَ الْقَوْلِ : بات اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس ظُلِمَ : ظلم ہوا ہو وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ سَمِيْعًا : سننے والا عَلِيْمًا : جاننے والا
اللہ بدزبانی کو پسند نہیں کرتا مگر یہ کہ کوئی مظلوم ہو۔ اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے
148۔ 149:۔ لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الْجَــهْرَ بِالسُّوْۗءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ سَمِيْعًا عَلِـــيْمًا۔ اِنْ تُبْدُوْا خَيْرًا اَوْ تُخْفُوْهُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْۗءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيْرًا۔ تعین اشخاص کے ساتھ برائی کا اظہار صرف مظلوم کے لیے جائز ہے : یہ مسلمانوں کو اسی طرح کی ایک تنبیہ ہے جس طرح کی تنبیہ آیت 86 میں گزرچکی ہے جس طرھ وہاں منافقین سے جب اعراض کا حکم ہوا تو ساتھ ہی مسلمانوں کو یہ ہدایت کردی گئی کہ جو تمہیں سلام کرے تم اس کے سلام کا جواب دو اور مقصود اس سے یہ تھا کہ مبادا پرجوش مسلمان ان لوگوں سے لام کلام ہی بند کردیں جن پر ان کو منافقت کا شبہ ہوجائے۔ اسی طرح یہاں اوپر والی آیات میں منافقین کے لیے چونکہ فی الدرک الاسفل من النار تک کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس سے اس بات کا اندیشہ تھا کہ مسلمان علانیہ سخت الفاظ میں منافقین کی برائیوں کا اظہار و اعلان شروع کردیں گے اس وجہ سے یہ ہدایت کردی گئی کہ تعین اشخاص کے ساتھ برائی کا اظہار صرف مظلوم کے لیے جائز ہے۔ دوسروں کے لیے اللہ اس کو پسند نہیں فرماتا۔ جماعتی زندگی کی ایک اہم ہدایت : یہ بات چونکہ جماعتی زندگی کے نہایت اہم مسائل میں سے ہے اس وجہ سے اس کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ جماعتی زندگی میں کسی گروہ کے اندر اگر کوئی ایسی برائی جڑ پکڑ رہی ہو یا پکڑ چکی ہو جو پوری جماعت کے لیے خطرہ بن سکتی ہو تو اس کا تدارک ضروری ہوتا ہے اور اس تدارک کے لیے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اس برائی کی قباحت و شناعت، اس کے نتائج بد اور اس کے مرتکبین کے انجام کو اچھی طرح واضح کردیا جائے تاکہ جماعت کے افراد اس کے شر سے محفوظ رہیں لیکن ساتھ ہی اس امر کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ جماعت کے عام افراد، عام صیغہ سے کہی ہوئی بات کو مجرد اپنے اندازے، قیاس اور گمان کی بنا پر معین اشخاص پر منطبق کرنا نہ شروع کردیں۔ اس سے نہ صرف اس بات کا اندیشہ ہے کہ بہت سے بےگناہ اشخاص تمہمتوں کے ہدف بن جائیں گے بلکہ جماعت میں انتشار و فساد پیدا ہوجانے کا خطرہ بھی ہے۔ یہاں منافقین سے متعلق جو باتیں بیان ہوئی ہیں، دیکھ لیجیے، بالکل عام صیغے سے بیان ہوئی ہیں اور مقصود یہ ہے کہ جو لوگ یہ حرکتیں کررہے ہیں وہ اگر اپنی اصلاح کرنا چاہیں تو اصلاح کرلیں اور اگر وہ اصلاح نہ کریں تو کم از کم مسلمان اپنے آپ کو ان فتنوں سے محفوظ رکھیں۔ اس حد تک یہ چیز نہ صرف یہ کہ ٹھیک ہے بلکہ جماعتی بقا کے لیے ناگزیر ہے لیکن اگر یہی چیز یہ شکل اختیار کرلے کہ اس کو دلیل بنا کر عام افراد تعین کے ساتھ ایک دوسرے کو ہدف مطاعن بنانا شروع کردیں کہ تو منافق ہے، تو کافر ہوگیا اور فلاں فی الدرک الاسفل من النار کا سزاوار ہے تو پوری جماعت میں ایک طوفان برپا ہوجائے گا۔ اس فتنے کے سدباب کے لیے یہ ہدایت فرمادی گئی کہ تعین اشخاص کے ساتھ برائی کا اظہار و اعلان صرف اس شخص کے لیے جائز ہے جس پر شخصاً ظلم ہوا ہے۔ اس صورت میں ظلم، ظالم اور مظلوم تینوں معین ہوں گے اور قانون اس کا مداوا کرسکے گا۔ جب تک یہ شکل نہ ہو بات عام صیغے ہی سے کہنی چاہئے جس طرح قرآن نے کہی ہے۔ آنحضرت ﷺ کے علم میں بھی جب اس طرح کی کوئی برائی آتی تو آپ ہمیشہ عام صیغے ہی سے اس پر لوگوں کو ملامت فرماتے۔ آپ کا عام انداز کلام یہ ہوتا۔ ما بال قوم یفعلون کذا وکذا، ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو اس اس طرح کے کام کرتے ہیں۔ البتہ جب کوئی متعین شخص کسی متعین جرم کے ساتھ سامنے آتا تو اس پر قانون کے مطابق گرفت فرماتے۔ صفات الٰہی کے ذکر سے مقصود ان کا لازم ہے : وکان اللہ سمیعا علیما بطور تنبیہ ہے یعنی کوئی شخص اگر اس ہدایت کے خلاف روش اختیار کرے گا تو وہ یاد رکھے کہ خدا سننے والا اور جاننے والا ہے۔ ہم ایک سے زیادہ مقامات پر یہ اصول بیان کرچکے ہیں کہ اس طرح جب صفاتِ الٰہی کا حوالہ اتا ہے تو مقصود اس سے ان کا لازم ہوتا ہے یعنی جب خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے تو اس پر وہ گرفت بھی لازماً فرمائے گا۔ پسندیدہ روش کا بیان : " ان تبدوا خیرا الایۃ " خدا کو جو روش ناپسند ہے اس کو بیان فرمانے کے بعد یہ پسندیدہ روش کا بیان ہے۔ فرمایا کہ پسندیدہ روش یہ ہے کہ آدمی اچھی بات کا اظہار کرے، اچھا جذبہ دل میں پرورش کرے اور دوسروں کی برائیوں سے درگزر کرے۔ اس کے بعد اپنی دو صفتوں۔ عفو اور قدیر۔ کا حوالہ دیا ہے جس سے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہورہا ہے کہ خدا ہر طرح کی قدرت رکھنے کے باوجود لوگوں کی برائیوں سے درگزر فرماتا ہے۔ اس وجہ سے وہ چاہتا ہے کہ اس کی ان صفات کا عکس اس کے بندوں کے اندر بھی پایا جائے۔ آدمی طاقت رکھتا ہے کہ وہ کسی کو ترکی بہ ترکی جواب دے سکے لیکن اس کے باوجود وہ درگزر کرجائے تو یہ عفو ہے۔
Top