Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 148
لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا
لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا اللّٰهُ : اللہ الْجَهْرَ : ظاہر کرنا بِالسُّوْٓءِ : بری بات مِنَ الْقَوْلِ : بات اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس ظُلِمَ : ظلم ہوا ہو وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ سَمِيْعًا : سننے والا عَلِيْمًا : جاننے والا
اللہ تعالیٰ بری بات کو ظاہر کرنا پسند نہیں کرتا مگر وہ شخص جس پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ سننے والا ہے اور جاننے والا ہے
ربط آیات : گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی بعض کارگزاریوں کا تذکرہ فرمایا تھا ، خاص طور پر ان کی کفار کے ساتھ دوستی کی مذمت بیان کی گئی تھی اور ساتھ ساتھ مومنوں کو یہ بات سمجھائی گئی تھی کہ وہ کافروں کو کسی صورت میں بھی اپنا دلی دوست نہ بنائیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح کیا کہ منافقوں کا کفار کے ساتھ دوستانہ حصول عزت کے لئے ہوتا ہے ، مگر انہیں کبھی عزت حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ تو ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کے پاس ہے جسے وہ عزت نہ دینا چاہے اسے دنیا میں کہیں عزت نصیب نہیں ہوسکتی۔ فرمایا عزت کا مالک تو اللہ ہے اور پھر دنیا میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ کا رسول ہے اور اس کے بعد کامل الایمان لوگ عزت والے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی سزا کا ذکر فرمایا کہ وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے اور وہاں ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ فرمایا جہنم کے عذاب سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ یہ لوگ توبہ کرلیں ، اپنی اصلاح کریں برائیوں کو ترک کردیں کافروں سے میل جول بند کردیں ، اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھام لیں اور اپنے اندر اخلاص پیدا کرلیں تو انہیں بھی مومنوں کی معیت حاصل ہوجائیگی۔ اہل ایمان سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا لاتسخذوا الکفرین اولیاء من دون المومنین کہ وہ بھی کافروں کے ساتھ دوستانہ نہ رکھیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کافر اور منافق دونوں مومنوں کے ساتھ دلی عداوت رکھتے ہیں۔ لہذا ان کا مسلمانوں کو ایذا پہنچانا بھی بالکل واضح ہے۔ جب ایسی صورت ہوگی تو مومنین بھی کافروں اور منافقوں کا گلہ شکوہ کریں گے۔ اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے اہل اسلام کا تذکرہ پچھلی سورة میں بھی ہوچکا ہے ولسمعن من الذین اوتوا الکتب من قبلکم ومن الذین اشرکوا اذی کثیرا یعنی اے ایمان والو ! تم ضرور اہل کتاب اور مشرکوں کی طرف سے تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ پھر وہاں پر اللہ تعالیٰ نے اس کا علاج بھی بتایا کہ اگر صبر اور تقویٰ سے کام لوگے تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہوگا تو یہاں پر بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر کفار اور منافقین کی طرف سے تمہیں اذیت پہنچے تو ایسی صورت میں تمہیں کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ تکلیف اٹھا کر تمہاری زبان پر گلہ شکوہ آئیگا تو یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اس رد عمل کے کچھ حدود وقیود بیان فرمائے ہیں۔ مکارم اخالق ارشاد ہوتا ہے لایحب اللہ الجھر بالسوء من القول اللہ تعالیٰ بری بات کے اظہار کو پسند نہیں فرماتا۔ جب کسی شخص کو دوسرے کے خلاف شکایت پیدا ہوتی ہے تو وہ اس کا اظہار دوسرے کے سامنے کرتا ہے۔ اگر یہ شکوہ تکلیف دہندہ کی موجودگی میں کیا جائے تو طعن کہلاتا ہے اور اگر اس کے پس پشت ہو تو غیبت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں صورتوں میں گلہ شکوہ کو ناپسند فرمایا ہے کہ ایک دوسرے کی عیب جوئی کی جائے ، ہاں اپنی تکلیف کے اظہار کی ایک صورت یہ ہے الا من ظلم یعنی جو مظلوم ہے وہ اپنی شکایت دوسرے کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔ مثلا مظلوم اپنی شکایت کسی بااختیار حاکم یا عدالت میں پیش کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ ظالم کی برائی کا بیان ہوگا جسے اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا مگر یہاں پر الا کا استثنا لگاکر اس بات کی اجازت دے دی گئی ہے کہ مظلوم شخص اپنی شکایت حاکم مجاز کے روبرو پیش کرسکتا ہے۔ یہ چیز غیبت یا طعن کی تعریف میں نہیں آئے گی۔ اسی طرح اگر حاکم وقت بھی مظلوم کی بات سننے اور اس کی دادرسی کے لئے تیار نہیں تو مظلوم اپنی شکایت کا اظہار اپنی قوم اور جماعت کے سامنے برملا کرسکتا ہے اس کی بھی اجازت ہوگی۔ لہذا مفسرین اور ممدثین کرام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی بااثر شخصیت برائی کا ارتکاب کرتی ہے اور سمجھانے کے بجھانے پر بھی اس مذموم حرکت سے باز نہیں آتی تو ایسی برائی کو عوام کے سامنے ظاہر کرنا بھی جائز ہے ، وگرنہ عام قانون یہی ہے کہ کسی دشمن کی بھی سرعام برائی نہ کرو خواہ وہ یہودی ، کافر یا منافق ہی کیوں نہ ہو۔ تکلیف اٹھانے کے باوجود اس کے اظہار سے ممانعت مکارم اخلاق کی اعلیٰ تعلیم ہے۔ فرمایا وکان اللہ سمیعا علیما اللہ تعالیٰ تمہاری شکایات کو سنتا ہے اور جس جس طریقے سے ایذا پہنچائی جاتی ہے وہ اس کو بھی جانتا ہے وہ ظالم کا خود محاسبہ کرے گا ، تاہم تمہارے لئے قانون یہی ہے کہ کسی کی برائی بیان کرنے سے حتی الامکان گریز کرو۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ پہلی آیت ضعفا کے حق میں ہے۔ کہ مظلوم اپنی فریاد متعلقہ فرد یا جماعت کے روبرو پیش کرسکتا ہے۔ البتہ اگلی آیت اصحاب عزیمت کے متعلق ہے کہ وہ حروف شکایت زبان پر نہ لائیں بلکہ صبر و استقامت کے ذریعے مکارم اخلاق کی اعلیٰ مثال قائم کریں۔ یہ تعلیم قرآن پاک میں مختلف مقامات پر دی گئی ہے۔ سورۃ بقرہ میں فرمایا فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم جو تم پر زیادتی کرے ، تم بھی اسی قدر زیادتی کرو جس قدر اس نے کی ہے۔ سورة نحل میں فرمایا ولئن صبرتم لھو خیر للصبرین اگر صبر کروگے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا۔ افضل بات یہ ہے کہ کسی کی زیادتی کا اس کے برابر بھی بدل نہ ل۔ اس سے تمہارے درجات بلند ہوں گے ، دنیا میں بھی فائدہ ہوگا ، مگر عاقبت میں تو بہت زیادہ فائدہ حاصل ہوگا۔ اللہ تعالیی نے صبر اور برداشت کو اعلیٰ درجے کی خصلت فرمایا ہے۔ البتہ تعدی یا زیادتہ کی صورت میں بدلہ لینے کی اجازت ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے المشتبان فعلی البادی مالم یعتد المظلوم جب دو آدمی آپس میں گالی گلوچ ہوتے ہیں تو اس کا سارا وبال ابتدا کرنے والے کے سر پر ہوتا ہے۔ جب تک کہ مظلوم تعدی نہ کرے۔ یعنی اگر مظلوم نے بھی آگے سے زیادتی کی تو وہ بھی مبتدی کی طرح وہ گیا اور ظلم میں دونوں برابر ٹھہرے۔ ایک شخص نے ایک گالی دی اور دوسرے نے دو گالیاں دیں تو دوسرا آدمی ظالم بن گیا ، اسی لئے فرمایا کہ جتنی کوئی زیادتی کرے ، اس کے ساتھ اتنی زیادتی کرنے کی اجازت ہے ، اس سے زیادہ نہیں۔ نیکی کا اجر پہلی بات تو یہ فرمائی کے اللہ تعالیٰ کو کسی کی برائی کرنا پسند نہیں ، البتہ مظلوم کو شکایت پیش کرنے کی اجازت ہے۔ اب دوسری بات یہ فرمائی ان تبدوا خیرا اگر تم نیکی کو ظاہر کروگے اوتحصوہ یا پوشیدہ رکھو گئے اوتعفوا ھن سوء یا برائی سے درگزر کروگے فان اللہ کان عضوا قدیرا تو اللہ تعالیٰ بہت ہی معاف کرنیوالا اور قدرت رکھنے والا ہے۔ وہ تم پر بہت زیادہ مہربانی فرمائے گا۔ اس دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین باتوں کا ذکر کیا ہے۔ پہلی بات نیکی کو ظاہر کرنا ہے۔ نیکی کو سرعام کرنے میں بعض قباحتیں ہیں۔ مثلا اس میں ریاکاری کا عنصر پایا جاتا ہے مگر بعض اوقات ظاہر کرنے میں بھی حکمت ہوتی ہے اور اس سے دوسروں کو ترغیب دلانا مقصود ہوتا ہے تاکہ وہ بھی اس قسم کی نیکی کا کام کریں یا کوئی اور مصلحت ہوتی ہے ، وگرنہ عام طور پر کھلے عام نیکی کرنے کا مقصد داد وصول کرنا یا اپنی تعریف کروانا ہوتا ہے اور یہی چیز برائی میں داخل ہے ، جب کسی نیکی میں ریاکاری پیدا ہوجائے تو عنداللھ اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ بیان کی گئی کہ اگر تم نیکی کو پوشیدہ رکھو گے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ جیسے صدقہ کے متعلق فرمایا ، اگر چھپا کر دو نعما ھی تو یہ بڑی اچھی بات ہے۔ اگرچہ ظاہری طور پر صدقہ خیرات کرنا بھی جائز ہے تاہم اگر پوشیدہ طور پر مستحق تک پہنچا دیا جائے تو ریاکاری نہیں رہتی اور یہ ایک بہتر صورت ہے۔ برائی سے درگزر اس آیت کریمہ میں تیسری چیز برائی سے درگزر کی تعلیم ہے۔ کسی نے قول یا فعل سے تمہاری برائی کی ہے ، اگر تم اسے معاف کردو تو یہ اعلیٰ درجے کی اخلاقی تعلیم ہے اور اگر یہ جذبہ پیدا ہوگیا تو پھر اللہ تعالیٰ خوش ہو کر تمہاری لغزشوں کو بھی معاف فرما دے گا۔ کسی نے تمہارے ساتھ زیادتی کی ہے اور تم نے انتقام لینے کی بجائے کسی سے ذکر تک نہیں بلکہ اس پر صبر کرکے خاموشی اختیار کرلی ہے تو یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے ، ایذرسائی انسان پر شاق گزرتی ہے۔ اس کے باوجود اگر انسان اس پر صبر و استقامت کا دامن تھام لے اور برائی کرنے والے کی برائی کو جواب نہ دے تو اس کے اعلیٰ مرتبت انسان ہونے کی دلیل ہوگا۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک بھی ہے کہ اگر تم برائی کا بدلہ نیکی کے ساتھ دوگے تو اس سے دشمن کا دل بھی نرم ہوجائے گا اور ہوسکتا ہے کہ تمہارے درمیان عداوت کی جگہ محبت پیدا ہوجائے۔ البتہ فرمایا کہ یہ کام ہر آدمی نہیں کرسکتا بلکہ وہ لوگ کرسکتے ہیں من عزم الامور جو پختہ عزم رکھتے ہیں۔ درگزر کرنا اور معاف کردینا صاحب عزت لوگوں کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قانون کے طور پر بتا دیا ہے کہ کسی کی برائی نہ کرو حتی کہ کافروں کے مقابلے میں صبر سے کام لو ، کسی فرد یا جماعت کی غیبت نہ کرو۔ اگر کوئی مشرک دہریہ یا کوئی غیرمذہب بھی برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو تم اس کی برائی بھی لوگوں کے سامنے بیان نہ کرو۔ مسلمان کی تربیت کا یہ اعلیٰ اصول ہے کہ اگر برائی کا جواب برائی سے دیا تو کچھ نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے معافی والے قانون کو ہی پسند فرمایا ہے۔ صرف کمزوروں کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنی شکایت پیش کرسکتے ہیں کیونکہ ان میں قوت برداشت نسبتا کم ہوتی ہے۔ تفریق بین الرسل آگے اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کی ایک اور ہماری تفریق بین الرسل کا ذکر فرمایا ارشاد ہے۔ ان الذین یکفرون باللہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں اسکی وحدانیت اور توحید کو نہیں مانتے ورسلہ اور اللہ کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں۔ ویہیدون ان یفرقوابین اللہ ورسلہ اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تفریق ایمان لانے کے اعتبار سے ہے کہ کچھ رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور کچھ پر نہیں لاتے۔ یہود و نصاریٰ یہی کہتے تھے ویقولون نومن بعض ونکفر بعض ہم بعض رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء و رسل پر ایمان لانا ضروری ہے اور کسی ایک کا انکار بھی مکمل انکار کے برابر ہے۔ عیسائی حضور نبی کریم ﷺ کی رسالت کا انکار کرتے ہیں اور یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخرالزمان دونوں کا انکار کرتے ہیں۔ یہی تفریق بین الرسل ہے اور اس کا مرتکب کافر ہے۔ یہود و نصاریٰ کے علاوہ بعض پہلی امتوں کے لوگ بھی اپنے انبیاء کا انکارت کرتے رہے۔ اس کی گواہی قرآن پاک نے متعدد مقامات پر دی ہے۔ کذبت عاد المرسلین قوم عاد نے رسولوں کا انکار کردیا۔ اسی طرح فرمایا کذبت قوم لوط المرسلین قوم لوط نے بھی رسولوں کا انکار کیا ، اسی طرح بہت سی دیگر قوموں کا بھی ذکر ملتا ہے جنہوں نے اللہ کے رسولوں کو ماننے سے انکار کردیا ، یہی تفریق بین الرسل ہے اور کسی ایک کا جھٹلانا سب کے جھٹلانے کے مترادف ہے کیونکہ سارے انبیاء کا دین عقیدہ اور مشن ایک ہی ہے۔ فرمایا ویریدون ان یتخذوا بین ذلک سبیلا اور یہ لوگ بعض رسولوں کو مان کر اور بعض کا انکار کرکے درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ یہی چیز ایمان کے منافی ہے۔ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا اولئک ھم الکفرون حقا یہ لوگ پکے کافر ہیں۔ ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں۔ کیونکہ انہوں نے اللہ کے رسولوں کے درمیان تفریق پیدا کی ہے۔ شاہ ولی اللہ نے اس مسئلہ کو اس طرح سمجھایا ہے کہ ارسال رسل اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور کسی ایک یا زیادہ رسولوں کا انکار خدا تعالیٰ کی صفت کا انکار ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا انکار کرے وہ کافروں اور دہریوں میں شامل ہوجاتا ہے اسی لئے فرمایا کہ یہ لوگ پکے کافر ہیں واعتدنا للکفرین عذابا مھینا اور ہم نے کفار کے لئے ذلت ناک عذاب تیار کررکھا ہے۔ خدا کے ہاں انہیں سخت سزا ملنے والی ہے۔ اہل ایمان کا بدلہ کفار کی مذمت بیان کرنے کے بعد پھر ایمان لانے والوں کے اجر کا ذکر بھی کیا والذین امنوا باللہ ورسلہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے یعنی وہ تمام رسول جن کے نام سے ہم واقف ہیں یا نہیں ہیں سب پر ایمان لائے۔ اسی سورة میں آگے آرہا ہے کہ ہم نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے رسول بھیجے تاکہ لوگوں پر حجت قائم ہوجائے۔ اور یہ بھی فرمایا رسلا قدقصمنھم علیک من قبل ہم نے بعض رسولوں کا ذکر آپ سے کیا ہے ورسلا لم نقصصھم علیک اور بعض کا تذکرہ نہیں کیا ، بہرحال تمام رسولوں کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے اور جو کچھ نبیوں کو دیا گیا ہے اس پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ ولم یغرقوا بین احد منھم اور انہوں نے تفریق نہیں کی ان میں سے کسی ایک کے درمیان فرمایا جو لوگ اس ایمان میں پختہ ہوجائیں گے اولئک سوف یوتیھم اجورھم اللہ تعالیٰ ان کو ان کا صحیح صحیح بدلہ دے گا۔ فرمایا وکان اللہ غفورا رحیما اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربان ہے۔ اہل ایمان سے جو چھوٹی موٹی لغزشیں ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت سے معاف فرمادے گا کیونکہ وہ اپنے بندوں پر نہایت ہی مہربان ہے۔
Top