Ahsan-ul-Bayan - An-Nisaa : 148
لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا
لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا اللّٰهُ : اللہ الْجَهْرَ : ظاہر کرنا بِالسُّوْٓءِ : بری بات مِنَ الْقَوْلِ : بات اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس ظُلِمَ : ظلم ہوا ہو وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ سَمِيْعًا : سننے والا عَلِيْمًا : جاننے والا
برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کو اجازت ہے (1) اور اللہ تعالیٰ خوب سنتا اور جانتا ہے۔
148۔ 1 شریعت نے تاکید کی ہے کہ کسی کے اندر برائی دیکھو تو اس کا چرچا نہ کرو بلکہ تنہائی میں اس کو سمجھاؤ۔ اسی طرح کھلے عام اور علی الاعلان برائی کرنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے۔ ایک تو برائی کا ارتکاب ویسے ہی ممنوع ہے، چاہے پردے کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا اسے سرعام کیا جائے یہ مزید ایک جرم ہے البتہ اس سے الگ ہے کہ ظالم کے ظلم کو تم لوگوں کے سامنے بیان کرسکتے ہو۔ جس سے ایک فائدہ یہ متوقع ہے کہ شائد وہ ظلم سے باز آجائے اور اس کی تلافی کی سعی کرے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے لوگ اس سے بچ کر رہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہا کہ مجھے میرا پڑوسی ایذا دیتا ہے۔ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا تم اپنا سامان نکال کر باہر راستے میں رکھ دو ، اس نے ایسا ہی کیا۔ چناچہ جو بھی گزرتا اس سے پوچھتا، وہ پڑوسی کے ظالمانہ رویے کی وضاحت کرتا تو سن کر ہر راہ گیر اس پر لعنت ملامت کرتا۔ پڑوسی نے یہ صورتحال دیکھ کر معذرت کرلی اور آئندہ کے لیے ایذاء نہ پہنچانے کا فیصلہ کرلیا اور اس سے اپنا سامان اندر رکھنے کی التجا کی۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب)
Top