Al-Qurtubi - An-Nisaa : 148
لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا
لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا اللّٰهُ : اللہ الْجَهْرَ : ظاہر کرنا بِالسُّوْٓءِ : بری بات مِنَ الْقَوْلِ : بات اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس ظُلِمَ : ظلم ہوا ہو وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ سَمِيْعًا : سننے والا عَلِيْمًا : جاننے والا
خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
آیت نمبر : 148۔ تا 149۔ اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” لا یحب اللہ الجھر بالسوٓء من القول “۔ کلام یہاں مکمل ہوئی، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” الا من ظلم “۔ یہ استثنا پہلی کلام سے نہیں ہے، یہ محل نصب میں ہے یعنی جس پر ظلم کیا گیا ہو اسے یہ کہنا جائز ہے کہ فلاں نے مجھ پر ظلم کیا اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ محل رفع میں ہو تقدیر کلام اس طرح ہو : ” لا یحب اللہ ان یجھر بالسوٓء الا من “ جمہور علماء کی قرات ظلم ظاء کے ضمہ اور لام کے کسرہ کے ساتھ اور لام کا ساکن کرنا بھی جائز ہے، اور جن علماء نے ظلم ظا اور کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے وہ زید بن اسلم، ابن ابی اسحاق وغیرہما ہیں اور فتحہ کی خفت کی وجہ سے لام کو ساکن کرنا جائز نہیں پس پہلی قرات پر ایک طائفہ نے کہا : اس کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا کہ کوئی برملا بری بات کہے مگر جس پر ظلم کیا گیا ہو تو اس کے لیے اپنی مظلومیت کی داستان سنان مکروہ نہیں، پھر برملا بری بات کہے مگر جس پر ظلم کیا گیا ہو تو اس کے لیے اپنی مظلومیت کی داستان سنانا مکروہ نہیں۔ پھر برملا بری بات کی کیفیت میں علماء کا اختلاف ہے اور اس میں سے جو مباح ہے اس میں بھی اختلاف ہے، حسن نے کہا : ایک شخص دوسرے پر ظلم کرتا ہے تو وہ اس کے خلاف دعا نہ کرے بلکہ اس طرح کہے : اللہم اعنی اعلیہ، اللھم استخرج حقی، اللہم حل بینہ وبین مایرید من ظلمی (1) (تفسیر الحسن البصری، جلد 2، صفحہ 375) اے اللہ اس کے خلام میری مدد فرما، اے اللہ میرا حق نکال دے، اے اللہ اس کے اور جو وہ مجھ پر ظلم کا ارادہ کرتا ہے اس کے درمیان حائل ہوجا۔ یہ مدافعت کی دعا ہے اور یہ سوء کی کم سے کم منزل ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ، نے کہا : اس کے لیے مباح ہے جس پر ظلم کیا گیا ہے کہ وہ ظالم کے خلاف بددعا کرے (2) (تفسیر الماوردی، جلد 1، صفحہ 539) وہ صبر کرے تو اس کے لیے بہتر ہے، یہ ظالم کے خلاف دعا کی نوع میں اطلاق ہے، سدی اور حضرت ابن عباس ؓ کا یہ قول بھی ہے کہ جس پر ظلم کیا گیا ہے اس کے لیے ظالم پر اس کے ظلم کی مثل ظلم کرنا اور اس کی برائی بیان کرنا جائز ہے۔ (3) (تفسیر الماوردی، جلد 1، صفحہ 540) ابن مستیز نے کہا : (آیت) ” الا من ظلم “۔ کا معنی ہے جس کو کفر یا اسی جیسی بری بات پر مجبور کیا گیا ہو، یہ مباح ہے، اس مفہوم پر آیت اکراہ کے بارے میں ہوگی۔ (4) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 129 دارالکتب العلمیہ) اور اس طرح قطرب نے کہا : (آیت) ” الا من ظلم “۔ سے مراد مکرہ (جس کو مجبور کیا گیا ہو) ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہوتا ہے، وہ اگرچہ کفریہ کلمہ بھی کہہ دے تو اس پر گرفت نہیں ہے، فرمایا : (آیت) ” الا من ظلم “۔ کا معنی بدل کی حیثیت سے بھی جائز ہے گویا یوں فرمایا : لا یحب اللہ الا من ظلم “۔ یعنی اللہ تعالیٰ ظالم کو پسند نہیں کرتا گویا وہ فرماتا ہے : وہ مظلوم کو اجر دیتا ہے، اس قول پر تقدیر اس طرح ہوگی : لا یحب اللہ ذا الجھر بالسؤ الا من ظلم یہ بدل کے اعتبار سے ہے، مجاہد نے کہا : یہ ضیافت کے بارے میں نازل ہوئی ہے اسے یہ کہنے کی رخصت دی گئی ہے۔ ابن جریج نے مجاہد سے روایت کیا ہے یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی جو صحرا میں کسی شخص کا مہمان بنا تو اس نے اس کی مہمان نوازی نہ کی تو یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” الا من ظلم “۔ اس روایت کو ابن ابی نجیح نے مجاہد سے روایت کیا ہے فرمایا : یہ آیت ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی جو کسی کے پاس سے گزرا تو اس نے اس کی مہمان نوازی نہ کی تو اسے یہ کہنے کی رخصت دی گئی کہ اس نے میری اچھے طریقہ سے ضیافت نہیں کی (5) (تفسیر الماوردی، جلد 1، صفحہ 540) جن علماء نے ضیافت کو واجب قرار دیا ہے انہوں نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے وہ کہتے ہیں : کیونکہ ظلم ممنوع ہے پس یہ ضیافت کے وجوب پر دلیل ہے۔ لیث بن سعد کا یہی قول ہے۔ جمہور علماء کہتے ہیں : ضیافت (مہمان نوازی) یہ مکارم اخلاق میں سے ہے۔ اس کا مزید بیان سورة ہود میں آئے گا۔ ظاہر آیت کا مقتضا یہ ہے کہ مظلوم مناسب حد تک ظالم سے بدلہ لے سکتا ہے اگر وہ مومن ہے جیسا کہ حضرت حسن نے فرمایا : قذف کے مقابلہ میں قذف ہو تو یہ درست نہیں، یہ مسئلہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ اگر وہ کافر ہے تو پھر اپنی زبان کو آزاد چھوڑ دے اور اس کے لیے ہلاکت، ہر دعا جو چاہے مانگ لے جس طرح کہ نبی مکرم ﷺ نے دعا کی تھی ” اے اللہ ! مضر قبیلہ کو روند ڈال، ان کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ جیسے قحط میں مبتلا کردے۔ (1) (صحیح بخاری، کتاب الدعوات، جلد 2، صفحہ 946) اور عرض کی : ” اے اللہ فلاں کو اپنی گرفت میں لے لے فلاں کو اپنی گرفت میں لے لے “۔ آپ نے قریش کے نام لیے، اگر وہ سرعام ظلم کرنے والا ہے تو اس کے خلاف بدعا بھی جہرا ہوگی، نہ اس کی عزت محترم ہوگی، نہ اس کا بدن محترم ہوگا، نہ اس کا مال محترم ہوگا، ابو داؤد نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے، فرمایا : ان کی کوئی چیز چوری کی گئی تھی، میں چور کے خلاف دعا کرتی تھی، رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا :” اپنی بدعا کے ساتھ اس کی سزا میں تخفیف نہ کر “ (2) (سنن ابی داؤد کتاب الادب جلد 2، صفحہ 316، ایضا حدیث 1279، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) عمرو بن شرید نے اپنے باپ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے فرمایا : ” قرض کی ادائیگی پر قادر شخص کا ٹال مٹول کرنا اس کی عزت اور اس کی سزا کو حلال کرتا ہے “۔ (3) (سنن ابی داؤد، کتاب القضیہ جلد 2 صفحہ 155) ابن مبارک نے کہا : اس کی عزت کو حلال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے سخت کلامی کی جاتی ہے اور اس کی سزا کے حلال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے قید کیا جاتا ہے، صحیح مسلم میں ہے ” غنی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے (4) ‘(صحیح بخاری، باب الحوالۃ، حدیث نمبر 2125، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) خوشحال قادر شخص سے جب ادائیگی کا مطالبہ کیا جائے اور وہ ٹال مٹول کرے تو یہ ظلم ہے یہ اس کی عزت کو مباح کردیتا ہے، اس لیے کہا جاتا ہے، فلاں لوگوں سے ٹال مٹول کرتا ہے، لوگوں کو حقوق روکتا ہے امام کے لیے اس کو ادب سکھانا اور اس کو تعزیر لگانا مباح کرتا ہے حتی کہ وہ اس عمل سے اجتناب کرے، یہی معنی سفیان سے بھی مروی ہے، یہی ابن المبارک کے قول کا معنی ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) اس باب سے وہ نہیں ہے جو صحیح مسلم میں حضرت عباس ؓ کا قول حضرت علی ؓ کے متعلق ہے جو انہوں نے حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان، حضرت زبیر، اور حضرت عبدالرحمن بن عومرضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی موجودگی میں کہا تھا : اے امیر المومنین ! میرے اور اس جھوٹے گنہگار، غادر خائن کے درمیان جو جھگڑا ہے اس کا فیصلہ کیجئے، کسی نے بھی ان پر بات کو لوٹایا نہیں، کیونکہ یہ فیصلہ تھا اور حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت علی ؓ میں سے ہر ایک اپنے آپ کو سچا اور صحیح سمجھتا تھا حتی کہ حضرت عمر ؓ نے ان پر جو واجب تھا وہ نافذ کردیا، یہ ابن عربی کا قول ہے، ہمارے علماء نے فرمایا : یہ اس صورت میں ہے جب مقامات و مراتب برابر ہوں لیکن جب مراتب میں فرق ہو تو کمتر لوگوں کو فضلاء پر زبان کھولنے کی اجازت نہیں دی جائے گی (5) (احکام القرآن لابن العربی جلد 1، صفحہ 513) بلکہ ان کا حق صرف دعوی کے ساتھ طلب کیا جائے گا دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت عباس ؓ کی طرف سے جو گفتگو تھی وہ غصے میں تھی کیونکہ حضرت عباس ؓ نے یہ قول اپنے چچا ہونے کی حیثیت سے بولا، کیونکہ چچا باپ کی مثل ہوتا ہے اس میں کوئی شک نہیں باپ جب بیٹے کے بارے میں ان الفاظ کا اطلاق کرتا ہے تو اس میں سختی اور جھڑکنے میں مبالغہ مقصود ہوتا ہے نہ کہ بیٹا واقعی ان امور سے موصوف ہوتا ہے، نیز وہ ایک دینی ولایت کے جھگڑے میں تھے حضرت ابن عباس ؓ کا خیال تھا کہ کہ ان کی اس میں مخالفت جائز نہیں اور ان کی اس مسئلہ میں مخالفت کو مخالف ان امور سے متصف کردیتا ہے پس آپ نے ان وجوہ کی بنا پر غصہ کی وجہ سے ایسا کہا تھا، جب حاضرین نے یہ جان لیا تھا تو کسی نے حضرت ابن عباس ؓ پر انکار نہ کیا یہ مازری اور قاضی عیاض (رح) وغیرہما کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) جس نے ظلم پڑھا یعنی ظاء اور لام کے فتحہ کے ساتھ، یہ زید بن اسلم کی قرات ہے یہ محمد بن کعب قرضی کے بعد مدینہ میں قرآن جاننے والے علماء میں سے تھے اور یہ ابن ابی اسحاق، ضحاک، حضرت ابن عباس، ابن جبیر، اور عطا السائب، رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، رحمۃ اللہ علیہم کی قرات ہے یعنی جس نے قول یا فعل میں ظلم کیا تو اس کی سرعام برائی بیان کرو، معنی میں فعل سے نہی ہے اور سے زجروتوبیخ کرنا ہے، معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا کہ جو نفاق سے توبہ کرے تو پھر اسے کہا جائے کہ کیا تو پہلے منافق نہیں تھا ؟ الا ظلم مگر جو نفاق پر قائم رہے، اس پر دلیل یہ قول ہے۔ (آیت) ” الا الذین تابوا، ابن زید نے کہا : یہ اس طرح ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے منافقین کے متعلق خبر دی کہ دوزخ کے نچلے طبقہ میں، پس تو جہرا ان کی برائی کا بیان تھا پھر اس کے بعد ان کے متعلق فرمایا : ما یفعل اللہ بعذابکم ‘ یہ ان کو مانوس کرنا اور شکر و ایمان کی طرف بلانا ہے پھر مومنین کو فرمایا : (آیت) ” لا یحب اللہ الجھر بالسوٓء من القول الا من ظلم “۔ یعنی جو مسلمان ہوجائے تو اسے منافق نہ کہو مگر وہ جو نفاق پر قائم ہو اسے کہا جائے گا کیا تو منافق، کافر نہیں ہے، تیرے لیے آگ کا نچلا طبقہ ہے اس جیسا اور کوئی قول، ایک قوم نے کہا : اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا کہ کسی کی سرعام برائی بیان کی جائے پھر استثنا منقطع ذکر فرمایا لیکن جو ظلم کرے وہ ظلم و زیادتی کرتے ہوئے مظلوم کی عزت کو بھی تار تار کرے جب کہ وہ ہے بھی ظالم۔ میں کہتا ہوں : یہ اکثر ظالموں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنے ظلم کے ساتھ ساتھ اپنی زبان سے گالی گلوچ بھی دیتے ہیں اور مظلوم کی عزت کو بھی تار تار کرتے ہیں جس کو ان پر حرام کیا گیا تھا، ابو اسحاق زجاج نے کہا : یہ معنی بھی ہو سکتا ہے۔ (آیت) ” الامن ظلم “۔ جس نے بری بات کہی مناسب ہے کہ ہم اس کے ہاتھ کو پکڑیں یہ پہلی کلام سے استثنا نہ ہوگی۔ میں کہتا ہوں : اس پر احادیث دلالت کرتی ہیں ایک حدیث یہ ہے خذوا علی ایدی سفھائکم (1) (شعب الایمان فی الامر بالمعروف، جلد 6، صفحہ 92) تم اپنے بیوقوفوں کے ہاتھوں کو پکڑو، اور ارشاد ہے ” اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو “ (2) (صحیح بخاری کتاب الاکراہ جلد 2، صفحہ 1026) صحابہ نے کہا : یہ مظلوم ہم اس کی تو مدد کریں گے، ظالم کی مدد کیسے کریں ؟ فرمایا ” تم اسے ظلم سے روکو، فراء نے (آیت) ” الامن ظلم “۔ یعنی ولا من ظلم، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وکان اللہ سمیعاعلیما “۔ ظالم کو ڈرایا گیا ہے تاکہ وہ ظلم نہ کرے اور مظلوم کو اس جملہ سے ڈرایا گیا ہے کہ وہ انتقام لینے حد سے تجاوز نہ کرے، پھر اس کے بعد فرمایا (آیت) ” ان تبدوا خیرا اوتخفوہ اوتعفوا عن سوئ “۔ عفو ودرگز کی رغبت دلائی، العفوا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، اس کا مطلب ہے انتقام پر قدرت ہوتے ہوئے معاف کرنا آل عمران میں (آیت) ” والعافین عن الناس “ (آل عمران : 134) کے تحت یہ مفہوم گزر چکا ہے، غور وفکر کرنے والوں کے لیے ان تھوڑے سے الفاظ میں بہت سے معانی موجود ہیں، بعض نے کہا : اگر تو معاف کرے گا تو اللہ تعالیٰ تجھے معاف کرے گا، ابن المبارک نے روایت کیا ہے فرمایا : مجھے اس نے بتایا جس نے حسن سے سنا تھا کہ جب ساری امتیں قیامت کے روز رب العالمین کے سامنے گری پڑی ہوں گی تو آواز دی جائے گی : وہ کھڑا ہو جس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے تو وہ کھڑا ہوگا جس نے دنیا میں معاف کیا ہوگا، اس حدیث کی تصدیق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کرتا ہے : (آیت) ” فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ (الشوری : 40 )
Top