Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - An-Nisaa : 148
لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا
لَا يُحِبُّ
: پسند نہیں کرتا
اللّٰهُ
: اللہ
الْجَهْرَ
: ظاہر کرنا
بِالسُّوْٓءِ
: بری بات
مِنَ الْقَوْلِ
: بات
اِلَّا
: مگر
مَنْ
: جو۔ جس
ظُلِمَ
: ظلم ہوا ہو
وَكَانَ
: اور ہے
اللّٰهُ
: اللہ
سَمِيْعًا
: سننے والا
عَلِيْمًا
: جاننے والا
خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
آیت نمبر :
148
۔ تا
149
۔ اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” لا یحب اللہ الجھر بالسوٓء من القول “۔ کلام یہاں مکمل ہوئی، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” الا من ظلم “۔ یہ استثنا پہلی کلام سے نہیں ہے، یہ محل نصب میں ہے یعنی جس پر ظلم کیا گیا ہو اسے یہ کہنا جائز ہے کہ فلاں نے مجھ پر ظلم کیا اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ محل رفع میں ہو تقدیر کلام اس طرح ہو : ” لا یحب اللہ ان یجھر بالسوٓء الا من “ جمہور علماء کی قرات ظلم ظاء کے ضمہ اور لام کے کسرہ کے ساتھ اور لام کا ساکن کرنا بھی جائز ہے، اور جن علماء نے ظلم ظا اور کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے وہ زید بن اسلم، ابن ابی اسحاق وغیرہما ہیں اور فتحہ کی خفت کی وجہ سے لام کو ساکن کرنا جائز نہیں پس پہلی قرات پر ایک طائفہ نے کہا : اس کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا کہ کوئی برملا بری بات کہے مگر جس پر ظلم کیا گیا ہو تو اس کے لیے اپنی مظلومیت کی داستان سنان مکروہ نہیں، پھر برملا بری بات کہے مگر جس پر ظلم کیا گیا ہو تو اس کے لیے اپنی مظلومیت کی داستان سنانا مکروہ نہیں۔ پھر برملا بری بات کی کیفیت میں علماء کا اختلاف ہے اور اس میں سے جو مباح ہے اس میں بھی اختلاف ہے، حسن نے کہا : ایک شخص دوسرے پر ظلم کرتا ہے تو وہ اس کے خلاف دعا نہ کرے بلکہ اس طرح کہے : اللہم اعنی اعلیہ، اللھم استخرج حقی، اللہم حل بینہ وبین مایرید من ظلمی (
1
) (تفسیر الحسن البصری، جلد
2
، صفحہ
375
) اے اللہ اس کے خلام میری مدد فرما، اے اللہ میرا حق نکال دے، اے اللہ اس کے اور جو وہ مجھ پر ظلم کا ارادہ کرتا ہے اس کے درمیان حائل ہوجا۔ یہ مدافعت کی دعا ہے اور یہ سوء کی کم سے کم منزل ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ، نے کہا : اس کے لیے مباح ہے جس پر ظلم کیا گیا ہے کہ وہ ظالم کے خلاف بددعا کرے (
2
) (تفسیر الماوردی، جلد
1
، صفحہ
539
) وہ صبر کرے تو اس کے لیے بہتر ہے، یہ ظالم کے خلاف دعا کی نوع میں اطلاق ہے، سدی اور حضرت ابن عباس ؓ کا یہ قول بھی ہے کہ جس پر ظلم کیا گیا ہے اس کے لیے ظالم پر اس کے ظلم کی مثل ظلم کرنا اور اس کی برائی بیان کرنا جائز ہے۔ (
3
) (تفسیر الماوردی، جلد
1
، صفحہ
540
) ابن مستیز نے کہا : (آیت) ” الا من ظلم “۔ کا معنی ہے جس کو کفر یا اسی جیسی بری بات پر مجبور کیا گیا ہو، یہ مباح ہے، اس مفہوم پر آیت اکراہ کے بارے میں ہوگی۔ (
4
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
129
دارالکتب العلمیہ) اور اس طرح قطرب نے کہا : (آیت) ” الا من ظلم “۔ سے مراد مکرہ (جس کو مجبور کیا گیا ہو) ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہوتا ہے، وہ اگرچہ کفریہ کلمہ بھی کہہ دے تو اس پر گرفت نہیں ہے، فرمایا : (آیت) ” الا من ظلم “۔ کا معنی بدل کی حیثیت سے بھی جائز ہے گویا یوں فرمایا : لا یحب اللہ الا من ظلم “۔ یعنی اللہ تعالیٰ ظالم کو پسند نہیں کرتا گویا وہ فرماتا ہے : وہ مظلوم کو اجر دیتا ہے، اس قول پر تقدیر اس طرح ہوگی : لا یحب اللہ ذا الجھر بالسؤ الا من ظلم یہ بدل کے اعتبار سے ہے، مجاہد نے کہا : یہ ضیافت کے بارے میں نازل ہوئی ہے اسے یہ کہنے کی رخصت دی گئی ہے۔ ابن جریج نے مجاہد سے روایت کیا ہے یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی جو صحرا میں کسی شخص کا مہمان بنا تو اس نے اس کی مہمان نوازی نہ کی تو یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” الا من ظلم “۔ اس روایت کو ابن ابی نجیح نے مجاہد سے روایت کیا ہے فرمایا : یہ آیت ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی جو کسی کے پاس سے گزرا تو اس نے اس کی مہمان نوازی نہ کی تو اسے یہ کہنے کی رخصت دی گئی کہ اس نے میری اچھے طریقہ سے ضیافت نہیں کی (
5
) (تفسیر الماوردی، جلد
1
، صفحہ
540
) جن علماء نے ضیافت کو واجب قرار دیا ہے انہوں نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے وہ کہتے ہیں : کیونکہ ظلم ممنوع ہے پس یہ ضیافت کے وجوب پر دلیل ہے۔ لیث بن سعد کا یہی قول ہے۔ جمہور علماء کہتے ہیں : ضیافت (مہمان نوازی) یہ مکارم اخلاق میں سے ہے۔ اس کا مزید بیان سورة ہود میں آئے گا۔ ظاہر آیت کا مقتضا یہ ہے کہ مظلوم مناسب حد تک ظالم سے بدلہ لے سکتا ہے اگر وہ مومن ہے جیسا کہ حضرت حسن نے فرمایا : قذف کے مقابلہ میں قذف ہو تو یہ درست نہیں، یہ مسئلہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ اگر وہ کافر ہے تو پھر اپنی زبان کو آزاد چھوڑ دے اور اس کے لیے ہلاکت، ہر دعا جو چاہے مانگ لے جس طرح کہ نبی مکرم ﷺ نے دعا کی تھی ” اے اللہ ! مضر قبیلہ کو روند ڈال، ان کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ جیسے قحط میں مبتلا کردے۔ (
1
) (صحیح بخاری، کتاب الدعوات، جلد
2
، صفحہ
946
) اور عرض کی : ” اے اللہ فلاں کو اپنی گرفت میں لے لے فلاں کو اپنی گرفت میں لے لے “۔ آپ نے قریش کے نام لیے، اگر وہ سرعام ظلم کرنے والا ہے تو اس کے خلاف بدعا بھی جہرا ہوگی، نہ اس کی عزت محترم ہوگی، نہ اس کا بدن محترم ہوگا، نہ اس کا مال محترم ہوگا، ابو داؤد نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے، فرمایا : ان کی کوئی چیز چوری کی گئی تھی، میں چور کے خلاف دعا کرتی تھی، رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا :” اپنی بدعا کے ساتھ اس کی سزا میں تخفیف نہ کر “ (
2
) (سنن ابی داؤد کتاب الادب جلد
2
، صفحہ
316
، ایضا حدیث
1279
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) عمرو بن شرید نے اپنے باپ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے فرمایا : ” قرض کی ادائیگی پر قادر شخص کا ٹال مٹول کرنا اس کی عزت اور اس کی سزا کو حلال کرتا ہے “۔ (
3
) (سنن ابی داؤد، کتاب القضیہ جلد
2
صفحہ
155
) ابن مبارک نے کہا : اس کی عزت کو حلال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے سخت کلامی کی جاتی ہے اور اس کی سزا کے حلال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے قید کیا جاتا ہے، صحیح مسلم میں ہے ” غنی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے (
4
) ‘(صحیح بخاری، باب الحوالۃ، حدیث نمبر
2125
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) خوشحال قادر شخص سے جب ادائیگی کا مطالبہ کیا جائے اور وہ ٹال مٹول کرے تو یہ ظلم ہے یہ اس کی عزت کو مباح کردیتا ہے، اس لیے کہا جاتا ہے، فلاں لوگوں سے ٹال مٹول کرتا ہے، لوگوں کو حقوق روکتا ہے امام کے لیے اس کو ادب سکھانا اور اس کو تعزیر لگانا مباح کرتا ہے حتی کہ وہ اس عمل سے اجتناب کرے، یہی معنی سفیان سے بھی مروی ہے، یہی ابن المبارک کے قول کا معنی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
2
) اس باب سے وہ نہیں ہے جو صحیح مسلم میں حضرت عباس ؓ کا قول حضرت علی ؓ کے متعلق ہے جو انہوں نے حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان، حضرت زبیر، اور حضرت عبدالرحمن بن عومرضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی موجودگی میں کہا تھا : اے امیر المومنین ! میرے اور اس جھوٹے گنہگار، غادر خائن کے درمیان جو جھگڑا ہے اس کا فیصلہ کیجئے، کسی نے بھی ان پر بات کو لوٹایا نہیں، کیونکہ یہ فیصلہ تھا اور حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت علی ؓ میں سے ہر ایک اپنے آپ کو سچا اور صحیح سمجھتا تھا حتی کہ حضرت عمر ؓ نے ان پر جو واجب تھا وہ نافذ کردیا، یہ ابن عربی کا قول ہے، ہمارے علماء نے فرمایا : یہ اس صورت میں ہے جب مقامات و مراتب برابر ہوں لیکن جب مراتب میں فرق ہو تو کمتر لوگوں کو فضلاء پر زبان کھولنے کی اجازت نہیں دی جائے گی (
5
) (احکام القرآن لابن العربی جلد
1
، صفحہ
513
) بلکہ ان کا حق صرف دعوی کے ساتھ طلب کیا جائے گا دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت عباس ؓ کی طرف سے جو گفتگو تھی وہ غصے میں تھی کیونکہ حضرت عباس ؓ نے یہ قول اپنے چچا ہونے کی حیثیت سے بولا، کیونکہ چچا باپ کی مثل ہوتا ہے اس میں کوئی شک نہیں باپ جب بیٹے کے بارے میں ان الفاظ کا اطلاق کرتا ہے تو اس میں سختی اور جھڑکنے میں مبالغہ مقصود ہوتا ہے نہ کہ بیٹا واقعی ان امور سے موصوف ہوتا ہے، نیز وہ ایک دینی ولایت کے جھگڑے میں تھے حضرت ابن عباس ؓ کا خیال تھا کہ کہ ان کی اس میں مخالفت جائز نہیں اور ان کی اس مسئلہ میں مخالفت کو مخالف ان امور سے متصف کردیتا ہے پس آپ نے ان وجوہ کی بنا پر غصہ کی وجہ سے ایسا کہا تھا، جب حاضرین نے یہ جان لیا تھا تو کسی نے حضرت ابن عباس ؓ پر انکار نہ کیا یہ مازری اور قاضی عیاض (رح) وغیرہما کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (
3
) جس نے ظلم پڑھا یعنی ظاء اور لام کے فتحہ کے ساتھ، یہ زید بن اسلم کی قرات ہے یہ محمد بن کعب قرضی کے بعد مدینہ میں قرآن جاننے والے علماء میں سے تھے اور یہ ابن ابی اسحاق، ضحاک، حضرت ابن عباس، ابن جبیر، اور عطا السائب، رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، رحمۃ اللہ علیہم کی قرات ہے یعنی جس نے قول یا فعل میں ظلم کیا تو اس کی سرعام برائی بیان کرو، معنی میں فعل سے نہی ہے اور سے زجروتوبیخ کرنا ہے، معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا کہ جو نفاق سے توبہ کرے تو پھر اسے کہا جائے کہ کیا تو پہلے منافق نہیں تھا ؟ الا ظلم مگر جو نفاق پر قائم رہے، اس پر دلیل یہ قول ہے۔ (آیت) ” الا الذین تابوا، ابن زید نے کہا : یہ اس طرح ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے منافقین کے متعلق خبر دی کہ دوزخ کے نچلے طبقہ میں، پس تو جہرا ان کی برائی کا بیان تھا پھر اس کے بعد ان کے متعلق فرمایا : ما یفعل اللہ بعذابکم ‘ یہ ان کو مانوس کرنا اور شکر و ایمان کی طرف بلانا ہے پھر مومنین کو فرمایا : (آیت) ” لا یحب اللہ الجھر بالسوٓء من القول الا من ظلم “۔ یعنی جو مسلمان ہوجائے تو اسے منافق نہ کہو مگر وہ جو نفاق پر قائم ہو اسے کہا جائے گا کیا تو منافق، کافر نہیں ہے، تیرے لیے آگ کا نچلا طبقہ ہے اس جیسا اور کوئی قول، ایک قوم نے کہا : اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا کہ کسی کی سرعام برائی بیان کی جائے پھر استثنا منقطع ذکر فرمایا لیکن جو ظلم کرے وہ ظلم و زیادتی کرتے ہوئے مظلوم کی عزت کو بھی تار تار کرے جب کہ وہ ہے بھی ظالم۔ میں کہتا ہوں : یہ اکثر ظالموں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنے ظلم کے ساتھ ساتھ اپنی زبان سے گالی گلوچ بھی دیتے ہیں اور مظلوم کی عزت کو بھی تار تار کرتے ہیں جس کو ان پر حرام کیا گیا تھا، ابو اسحاق زجاج نے کہا : یہ معنی بھی ہو سکتا ہے۔ (آیت) ” الامن ظلم “۔ جس نے بری بات کہی مناسب ہے کہ ہم اس کے ہاتھ کو پکڑیں یہ پہلی کلام سے استثنا نہ ہوگی۔ میں کہتا ہوں : اس پر احادیث دلالت کرتی ہیں ایک حدیث یہ ہے خذوا علی ایدی سفھائکم (
1
) (شعب الایمان فی الامر بالمعروف، جلد
6
، صفحہ
92
) تم اپنے بیوقوفوں کے ہاتھوں کو پکڑو، اور ارشاد ہے ” اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو “ (
2
) (صحیح بخاری کتاب الاکراہ جلد
2
، صفحہ
1026
) صحابہ نے کہا : یہ مظلوم ہم اس کی تو مدد کریں گے، ظالم کی مدد کیسے کریں ؟ فرمایا ” تم اسے ظلم سے روکو، فراء نے (آیت) ” الامن ظلم “۔ یعنی ولا من ظلم، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وکان اللہ سمیعاعلیما “۔ ظالم کو ڈرایا گیا ہے تاکہ وہ ظلم نہ کرے اور مظلوم کو اس جملہ سے ڈرایا گیا ہے کہ وہ انتقام لینے حد سے تجاوز نہ کرے، پھر اس کے بعد فرمایا (آیت) ” ان تبدوا خیرا اوتخفوہ اوتعفوا عن سوئ “۔ عفو ودرگز کی رغبت دلائی، العفوا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، اس کا مطلب ہے انتقام پر قدرت ہوتے ہوئے معاف کرنا آل عمران میں (آیت) ” والعافین عن الناس “ (آل عمران :
134
) کے تحت یہ مفہوم گزر چکا ہے، غور وفکر کرنے والوں کے لیے ان تھوڑے سے الفاظ میں بہت سے معانی موجود ہیں، بعض نے کہا : اگر تو معاف کرے گا تو اللہ تعالیٰ تجھے معاف کرے گا، ابن المبارک نے روایت کیا ہے فرمایا : مجھے اس نے بتایا جس نے حسن سے سنا تھا کہ جب ساری امتیں قیامت کے روز رب العالمین کے سامنے گری پڑی ہوں گی تو آواز دی جائے گی : وہ کھڑا ہو جس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے تو وہ کھڑا ہوگا جس نے دنیا میں معاف کیا ہوگا، اس حدیث کی تصدیق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کرتا ہے : (آیت) ” فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ (الشوری :
40
)
Top