Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 148
لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا
لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا اللّٰهُ : اللہ الْجَهْرَ : ظاہر کرنا بِالسُّوْٓءِ : بری بات مِنَ الْقَوْلِ : بات اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس ظُلِمَ : ظلم ہوا ہو وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ سَمِيْعًا : سننے والا عَلِيْمًا : جاننے والا
اللہ پسند نہیں کرتا بری بات کو ظاہر کرنا، مگر جس پر ظلم کیا گیا ہو (کہ اس کا معاملہ اس سے مستثنیٰ ہے)1 اور اللہ (ہر کسی کی) سنتا سب کچھ جانتا ہے،
384 اللہ بری بات کے ظاہر کرنے کو پسند نہیں فرماتا : کہ اس سے کئی طرح کے مفاسد جنم لیتے ہیں، بغض وعناد اور حسد و کینہ کے جذبات ابھرتے ہیں۔ برائی کے چرچے سے اس کی نشرو اشاعت ہوتی ہے اور اس کا استخفاف ظہور میں آتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ واضح رہے کہ یہاں جہر سے مراد اعلان نہیں بلکہ مطلق اظہار وبیان ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ برائی کے اظہار وبیان کو پسند نہیں فرماتا اور یہاں پر برائی کے اظہار وبیان کا ذکر اس لیے فرمایا گیا کہ یہاں کفار و منافقین کے مفاسد کا ذکر چل رہا ہے۔ اس لیے اس سیاق وسباق کی مناسبت سے برائی کے اظہار کو بطور خاص ذکر فرمایا گیا ہے ورنہ اللہ پاک برائی کے اظہار کی طرح اس کے اخفاء و اسرار کو بھی پسند نہیں فرماتا۔ چناچہ دوسرے مقام پر اس نے گناہ، زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشی سے صاف اور صریح طور پر منع فرمایا ہے۔ (تفسیر المراغی) ۔ سو وہ برائی کے نہ اظہار کو پسند فرماتا ہے نہ اس کے اخفاء و اسرار کو ۔ سبحانہ تعالیٰ - 385 مظلوم کو بری بات کے اظہار کی اجازت : کہ اس کو ظلم کا اظہار کرنے کی اور اس کے خلاف آواز اٹھانے کی اجازت ہے کہ اس کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ مگر اس کے لئے بھی صرف اجازت ہے نہ کہ لزوم۔ پس اگر وہ صبر و برداشت سے کام لے سکے تو اس کے لئے بھی بہتر یہی ہے کہ وہ برائی کا خواہ مخواہ اظہار نہ کرے۔ اور یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا { وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ فَاِنَّ ذَالِکَ مِنْ عَزْمِ الاُمُوْرِ } (الشوریٰ : 43) ۔ نیز اس کیلئے یہ اجازت اسی صورت میں ہے کہ جبکہ اس کا اظہار وہ کسی ایسے شخص کے سامنے کرے جو اس سے اس کے ظلم کو رفع کرسکتا ہو یا اس کی کوئی نصرت و امداد کرسکتا ہو، ورنہ نہیں۔ کیونکہ اس کے بغیر یہ عبث کام ہوگا ۔ والعیاذ باللہ ۔ 386 اللہ سب کچھ سنتا جانتا ہے : پس وہ جانتا ہے کہ کس نے کتنی زیادتی کی اور اس کے خلاف مظلوم نے کتنی اور کس طرح آواز اٹھائی وغیرہ وغیرہ۔ پس اس سے اہل بدعت کے اس خود ساختہ اور من گھڑت فلسفے کی جڑ کٹ جاتی ہے جو وہ اللہ پاک کو مخلوق پر قیاس کرتے ہوئے اس طرح بگھارتے رہتے ہیں، کہ دیکھو ناں جی، جو ہم کسی ڈی سی، ایس پی وغیرہ کے پاس بھی براہ راست خود نہیں جاسکتے، اور اگر چلے بھی جائیں تو ہماری وہاں کوئی شنوائی نہیں ہوتی، جب تک کہ کسی کو وسیلہ نہ پکڑیں، اور وہ جا کر ہماری عرضی پیش نہ کرے، تو پھر ہم اللہ تعالیٰ کے یہاں براہ راست خود کیسے پہنچ سکتے ہیں ؟ ۔ وَتَعَالٰی عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا کَبِیْرًا ۔ تم اس اللہ کو جو کہ سمیع وبصیر اور علیم وخبیر ہے اور جو بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے، اس کو تم لوگ ڈی سی، ایس پی یا اس طرح کی کسی اور عاجزو درماندہ مخلوق پر قیاس کرتے ہو۔ اور جس پیغمبر نے اللہ کی طرف سے ہمیں یہ دین حق لا کردیا، اس پر ایمان اور اس کے اپنے پیچھے چھوڑی ہوئی کتاب و سنت کی مقدس تعلیمات پر عمل کا یہ عظیم الشان واسطہ و وسیلہ کیا کافی نہیں ؟ کہ ہم ازخود اوروں کے واسطے اور وسیلے ڈھونڈیں ؟ سو اللہ پاک کو مخلوق پر قیاس کرکے اس کیلئے خود ساختہ واسطے اور وسیلے ڈھونڈنا گمراہیوں کی گمراہی ہے کہ اس سے آگے شرک کے دروازے کھلتے ہیں۔ اسی لیے قرآن حکیم میں صاف اور صریح طور پر اللہ تعالیٰ کیلئے ازخود مثالیں بیان کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ ، ارشاد ہوتا ہے { فلا تضربوا للہ الأمثال ان اللہ یعلم و انتم لا تعلمون الآیۃ (النحل :74) ۔
Top