Baseerat-e-Quran - An-Nisaa : 148
لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا
لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا اللّٰهُ : اللہ الْجَهْرَ : ظاہر کرنا بِالسُّوْٓءِ : بری بات مِنَ الْقَوْلِ : بات اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس ظُلِمَ : ظلم ہوا ہو وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ سَمِيْعًا : سننے والا عَلِيْمًا : جاننے والا
اللہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو کھلم کھلا برا کہے۔ مگر وہ شخص جس پر ظلم کیا گیا ہے۔ (اس کے لئے جائز ہے) اور بیشک اللہ سنتا بھی ہے اور جانتا بھی ہے۔
آیت نمبر 148-152 لغات القرآن : لایحب اللہ، اللہ کو پسند نہیں ہے۔ الجھر بالسوء، برائی کو کھلم کھلا کہنا۔ لم یفرقوا، نہیں تفریق کرتے۔ تشریح : وہ سب پکے کافر ہیں جو (1) نہ اللہ کو مانتے ہیں نہ رسالت کو یا (2) اللہ کو مانتے ہیں۔ رسالت کو نہیں مانتے یا (3) کسی رسول کو مانتے ہیں کسی کو نہیں مانتے۔ اور جو توحید اور شرک کے درمیان کوئی ایسی راہ ڈھونڈ رہے ہیں کہ اللہ بھی مل جائے اور صنم بھی۔ ان سب کے لئے بڑی ذلت کا عذاب بھڑک رہا ہے۔ دنیا کے مذاہب کو دیکھئے بہت سے مذاہب اللہ کو بلکہ کسی معبود کو نہیں مانتے۔ بہت سے مذاہب بہت سے معبودوں کو مانتے ہیں۔ ہندو بتوں کو، بدھ کنفیوشس کو لیکن سکھ رسالت ہی کو نہیں مانتے۔ یہودی حضرت عیسیٰ کو نہیں مانتے۔ عیسائی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نہیں مانتے۔ مسلمانوں کے سوا کوئی پیغمبر اسلام ﷺ کو نہیں مانتا۔ کچھ گم راہ لوگ آپ کے بعد بھی ایک جھوٹے شخص کو نبی مانتے ہیں۔ قرآن کی نظر میں صرف وہی مومن ہیں جو اللہ اور اس کے تمام رسولوں کو مانتے ہیں اور تفریق نہیں کرتے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت حضور ﷺ کے سوا تمام پیغمبروں کی تعلیمات دنیا سے ناپید ہوچکی ہیں۔ مشرکین مکہ اور مدینہ کے یہود و نصاریٰ مومنین پر بہت ظلم کرتے تھے اور دین اسلام کو برا بھلا کہتے تھے۔ کبھی کبھی مسلمانوں میں طاقت برداشت ختم ہوجاتی اور وہ بھی تلخ کلامی کا جواب تلخ کلامی سے دیتے۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ سطح پر بھی مظلوم ظالم کے خلاف چیخ و پکار اور آہ و فریاد کرتے ۔ آیت 148 کی رو سے گالی کا جواب گالی سے دینا منع کردیا گیا ہے۔ زبانی فساد لڑئی جھگڑے اور تو تو میں میں سے مسلمانوں کو روکا گیا ہے۔ چیخنے چلانے یا آہ فریاد کرنے کی اجازت صرف مظلوموں کو دی گئی ہے مگر اس نصیحت کے ساتھ کہ تم ظالم کے ساتھ بھی نیکی کرو یا اس کے ظلم کو پوشیدہ رکھو بلکہ معاف ہی کردو۔ دیکھو اللہ بھی تو تمام طاقت وقدرت کے باوجود اپنے بندوں کے کتنے گناہ صبح و شام معاف کرتا ہے۔ مومن بھی صبح و شام غلطیاں کرتا ہے لیکن اللہ غفور رحیم ہے۔ مظلوموں کو نالہ و فغا اور نالش و فریاد کی اجازت دے کر ایک طرف اس کے دل کے دھویں کو خارج ہونے کا موقع دیا گیا ہے دوسری طرف اسے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی اجازت دی گئی ہے کیوں کہ ظلم کی روک تھام کے لئے عدالت ہی کا ادارہ ہے اگر عدالت ہی نہ ہوگی تو ظلم کا سلسلہ بڑھ جائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے مظلوم کو بھی بہترین اخلاق کی تربیت دی ہے کہ خاموش رہو۔ بلکہ معاف ہی کر دو تو بہتر ہے۔ اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ظالم کے ساتھ بھی نیکی کرو خواہ وہ تمہارے دین کو برا بھلا ہی کیوں نہ کہتا ہو۔ اس اخلاقی تعلیم میں ناجائز مروت اور رواداری نہیں ہے۔ اسلام اپنی سرحد ات کی پوری حفاظت کرتا ہے۔ اور صاف صاف کہتا ہے کہ وہ سب پکے کافر ہیں جو اللہ اور اس کے تمام رسولوں کو نہیں مانتے یا جو اضافہ یا تفریق کرتے ہیں۔ اور سمجھوتہ کی راہ تلاش کرتے ہیں۔
Top