Mafhoom-ul-Quran - An-Nisaa : 148
لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا
لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا اللّٰهُ : اللہ الْجَهْرَ : ظاہر کرنا بِالسُّوْٓءِ : بری بات مِنَ الْقَوْلِ : بات اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس ظُلِمَ : ظلم ہوا ہو وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ سَمِيْعًا : سننے والا عَلِيْمًا : جاننے والا
اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے، سوائے اس کے کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو اور اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے
مظلوم کا حق تشریح : ان آیات میں معاشرے کی اصلاح کا بہترین اصول بتایا گیا ہے۔ ایک طرف تو یہ اجازت دے دی گئی ہے کہ ظلم کے خلاف آواز ضرور اٹھائی جائے اور ظلم کے بدلے میں تم بھی اس پر اتنا ہی ظلم کرسکتے ہو لیکن بہترین عمل یہ ہے کہ تم اس کو معاف کر دو ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ نیکی خواہ چھپا کر کی جائے یا علانیہ کی جائے دونوں صورتوں میں بہترین عمل ہے اور رب رحمن اس کی جزا ضرور دے گا۔ معاف کردینے سے دشمن دوست بن جائے گا اور یوں پھیلتی ہوئی دشمنی اور فساد بڑی آسانی سے سمٹ جائے گا۔ عدالتی کارروائی ظلم کو تو روک سکتی ہے مگر دلوں میں پلنے والی دشمنی ختم نہیں ہوسکتی۔ یہ اخلاقی درس جو قرآن نے دیا ہے بہترین طریقہ ہے۔ آخر میں فرمایا کہ معاف کرنا اور درگزر کرنا اللہ رب العزت کی صفت ہے۔ اگر تم درگزر کرو گے تو یقیناً تم اس کے مقبول ترین بندوں میں شامل ہو سکو گے۔ ابو عبداللہ جدلی بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا : ” رسول اللہ ﷺ نہ طبعاً فحش گو تھے، نہ فحش کام کرتے تھے، نہ آپ بازاروں میں شور و غل کرتے تھے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے، بلکہ آپ ﷺ معاف کردیا کرتے تھے اور درگزر فرماتے تھے۔ “ (جامع ترمذی)
Top