Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ahzaab : 25
وَ رَدَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِغَیْظِهِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًا١ؕ وَ كَفَى اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْقِتَالَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ قَوِیًّا عَزِیْزًاۚ
وَرَدَّ : اور لوٹا دیا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا (کافر) بِغَيْظِهِمْ : ان کے غصے میں بھرے ہوئے لَمْ يَنَالُوْا : انہوں نے نہ پائی خَيْرًا ۭ : کوئی بھلائی وَكَفَى : اور کافی ہے اللّٰهُ : اللہ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) الْقِتَالَ ۭ : جنگ وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ قَوِيًّا : توانا عَزِيْزًا : غالب
اور جو کافر تھے ان کو خدا نے پھیر دیا وہ اپنے غصے میں (بھرے ہوئے تھے) کچھ بھلائی حاصل نہ کرسکے اور خدا مومنوں کو لڑائی کے بارے میں کافی ہوا اور خدا طاقتور (اور) زبردست ہے
25 تا 27۔ پہلی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا زبردست ہے کہ اپنے مخالفوں کے اتنے بڑے لشکر کو فقط ہوا سے پریشان کر کے ان کے غصہ میں اس طرح انہیں الٹا پھرایا کہ نہ پہنچے وہ کسی بھلائی کو اس کا مطلب یہ ہے کہ فتح مال غنیمت وغیرہ کچھ ان کے ہاتھ نہ لگا اور کافی ہوا اللہ ایمان والوں کو لڑائی سے مطلب یہ کہ مسلمانوں کو دشمنوں کے ساتھ لڑنے کی ضرورت نہیں پڑی فقط اللہ ہی کافی ہوا جو اس نے کافروں پر ہوا بھیج کر ان کو پریشان کردیا پھر فرمایا “ اتارا ان لوگوں کو جنہوں نے مشرکین مکہ کو مدد دی تھی ان کی گڑھیوں سے اور ڈال ان کے دلوں میں دہشت ایک فریق کو تم نے قتل کیا اور ایک کو قید “ کتاب والے اس لیے فرمایا کہ یہ لوگ یہودی تھے نبو قریظہ مدینہ کے پاس رہتے تھے پیغمبر ﷺ کے ساتھ صلح رکھتے تھے جنگ خندق کے وقت وہ بھی پھرگئے تھے صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت 1 ؎ ہے (1 ؎ صفحہ 590۔ 2 باب مرجع النبی ﷺ من الاجزاب ومخرجہ الی نبی قریظہ الخ۔ ) جس کا حاصل یہ ہے کہ جب حضرت ﷺ جنگ خندق سے فارے ہوئے تو جبرئیل حکم لائے اور لشکر اسلام نے نبی قریظہ کو جاگھیرا بنو قریظہ مدینہ سے چند میل کے فاصلہ پر رہتے تھے ‘ صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ؎ ہے (؎ تفسیر ابن کثیر ص 477 ج 3) جس کا حاصل یہ ہے کہ ظہر کی نماز کے بعد آنحضرت ﷺ نے چڑھائی کا حکم اس طرح پر دیا کہ تم لوگ عصر کی نماز نبو قریظہ ہی میں جاپڑھو صحابہ ؓ کو نماز کا وقت راستہ میں ہوگیا بعض نے راستے میں نماز پڑھی اور کہا آنحضرت ﷺ کے غرض اس حکم سے سفر میں جلدی کرنے کے سوا اور کچھ نہ تھی اور بعض نے کہا کہ ہم تو نبو قریظہ میں پہنچ کر نماز پڑھیں گے یہ حال سن کر دونوں طریق میں سے کسی کو اللہ کے رسول نے برا نہیں کہا اور خود پیغمبر ﷺ ان کے پیچھے روانہ ہوے 2 ؎ مدینہ پر (2 ؎ تفسیر معالم التنزیل للبغوی زیر تفسیر آیت ہذا۔ ) عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کو خلیفہ 3 ؎ کر کے حضرت علی ؓ کو نشان مرحمت کیا (3 ؎ سیرت ابن ہشام ص 234 ج 3 طبع جدید 1375 ھ 1955 ء (القاہرہ) پھر آنحضرت ﷺ نے نبی قریظہ کو پچیس روز تک گھیرے رکھا 4 ؎ اس کے بعد وہ لوگ سعد بن معاذ ؓ کے فیصلہ پر رضامند ہوئے (4 ؎ تفسیر معالم حوالہ مذکو والدر المنثور) اس وقت پیغمبر ﷺ نے سعد ؓ کو مدینہ منورہ سے بلا بھیجا سعد ؓ نے یہ فیصلہ کیا کہ نبو فزیظہ میں سے وہ آدمی مارے جائیں جو لڑڑائی کرسکتے ہیں اور ان کی اولا دقید کی جاوے اور ان کا مال لوٹا جاوے وقت پیغمبر صلع نے فرمایا جو حکم خدا تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر سے دیا تھا تم نے بھی اسی کے مطابق فیصلہ کیا پھر حضرت ﷺ نے گھاٹیاں کھودنے کا حکم دیا سے روایت 5 ؎ ہے (5 ؎ فتح الباری ص 69 ج 4 طبع دہلی۔ ) کہ ان میں لڑنے کے قابل چار سو تھے غرضے جو لڑنے کے قابل تھے وہ قتل کئے گئے اور باقی عورتوں کے ساتھ قید کئے گئے اور ان کے مال لوٹ لیے گئے پھر فرمایا وارث کیا اللہ تعالیٰ نے تم کو ان کی زمین اور گھر اور مال کا اور اس زمین کا کہ جس پر تم نے قدم نہیں رکھے تھے اس زمین میں سلف کا اختلاف ہے کہ جس زمین پر نبی قریظہ کے قصہ تک اللہ کے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ؓ نے فتح کے طور پر عمل دخل نہیں کیا تھا وہ کونسی زمین ہے ‘ حافظ ابو جعفر ابن 1 ؎ جریر (رح) (1 ؎ تفسیر ابن جریر 155 ج 21۔ ) نے اس اختلاف کا یہ فیصلہ کیا ہے کہ نبو قریظہ کے قصہ کے بعد مکہ خیبر یمن فارس روم جتنے مقامات اللہ کے رسول ﷺ اور امت کے زمانہ میں فتح ہوئے وہ سب اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ میں داخل ہیں ‘ مسند امام احمد اور نسائی کے حوالہ سے براء بن عازب ؓ کی معتبر روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں خندق کھودتے وقت اللہ کے رسول ﷺ نے ان مقامات کے فتح ہونے کی خوشخبری صحابہ کو سنائی جو مقامات اللہ کے رسول ﷺ کے بعد فتح ہوئے اس حدیث سے حافظ ابو جعفرابن جریر کے فیصلہ کی پوری تائید ہوتی ہے ‘ صحیح بخاری کے حوالہ سے عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت اوپر گزری اس میں تو یہی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ ؓ کو یہ حکم دیا کہ عصر کی نماز نبی قریظہ کے مقام پر پہنچ کر پڑھیں لیکن صیحو مسلم کی روایت میں بجائے عصر کے ظہر کا نام ہے حافظ ابن حجر (رح) نے فتح الباری میں صحیح بخاری کی روایت کو ترجیح دی ہے 2 ؎ (2 ؎ فتح الباری ص 67 ج 4۔ ) جو اصول حدیث کے قاعدہ کے موافق ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ صحت روایت کے لحاظ سے صحیح بخاری صحیح مسلم پر مقدم ہے حافظ ابن قیم (رح) نے اس نماز کے باب میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ جن صحابہ ؓ نے نبی قریظہ کے راستہ میں وقت پر نماز پڑھی اور پھر جلدی سے نبی قریظہ کے مقام پر پہنچ گئے ان کو نماز پڑھ لینے کا اجر زیادہ ملے گا کیوں کہ انہوں نے وقت پر نماز پڑھنے کے حکم اور نبی قریظہ کے مقام پر جلد پہنچنے کے حکم ان دونوں حکموں کی تعمیل کے ‘ وکان اللہ علیٰ کل شیء قدیرا اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی قریظہ پر فتح دینے کے علاوہ اور بہت سی فتوحات بھی اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہیں ‘ مسند امام احمد اور نسائی کے حوالہ سے براء بن عازب ؓ کی معتبر حدیث جو اوپر گذر چکی ‘ وہ آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے کیوں کہ اس حدیث سے آیت کے اس وعدہ کا ظہور اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔
Top