Mazhar-ul-Quran - Al-Ahzaab : 25
وَ رَدَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِغَیْظِهِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًا١ؕ وَ كَفَى اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْقِتَالَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ قَوِیًّا عَزِیْزًاۚ
وَرَدَّ : اور لوٹا دیا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا (کافر) بِغَيْظِهِمْ : ان کے غصے میں بھرے ہوئے لَمْ يَنَالُوْا : انہوں نے نہ پائی خَيْرًا ۭ : کوئی بھلائی وَكَفَى : اور کافی ہے اللّٰهُ : اللہ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) الْقِتَالَ ۭ : جنگ وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ قَوِيًّا : توانا عَزِيْزًا : غالب
اور1 اللہ نے کافروں (کے لشکر) کو ان کے دلوں کی جلن کے ساتھ لوٹا دیا کہ (مسلمانوں پر چڑھائی کر کے) کچھ نفع نہ پایا اور اللہ نے مسلمانوں کو جنگ کی کفایت دی اور اللہ زبردست غالب ہے ۔
(ف 1) بنی قریظہ نے نبی ﷺ کے مقابل قریش وغطفان وغیرہ احزاب کی مدد کی تھی اس میں عروہ بنی قریظہ کا بیان ہے۔ یہ اخیر ذی قعدہ 4، ہجری یا 5 میں ہوا۔ جب غزوہ خندق میں شب کو مخالفین کے لشکر بھاگ گئے جس کا اوپر کی آیات میں ذکر ہوچکا ہے اس شب کی صبح کو نبی ﷺ اور صحابہ کرام مدینہ طیبہ تشریف لائے اور ہتھیار اتار دیے، اس روز ظہر کے وقت جب نبی ﷺ کا سر مبارک دھویاجارہا تھا جبرائیل امین حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ حضور ﷺ نے ہتھیار رکھ دیے فرشتوں نے چالیس روز سے ہتھیار نہیں رکھے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو بنی قریظہ کی طرف جانے کا حکم فرماتا ہے ۔ نبی ﷺ نے حکم فرمایا کہ ندا کردی جائے کہ جو فرمانبردار ہو وہ عصر کی نماز بنی قریظہ میں جاکرپڑھے، نبی ﷺ یہ فرماکرروانہ ہوگئے اور مسلمان چلنے شروع ہوئے اور یکے بعد دیگرے نبی ﷺ کی خدمت میں پہنچتے رہے لشکر اسلام نے پچیس روز تک بنی قریظہ کو گھیرے میں رکھا، اس سے وہ تنگ آگئے اور اللہ نے ان کے دلون میں رعب ڈالا، نبی نے ان سے فرمایا کہ کیا تم میرے حکم پر قلعوں سے اترو گے، انہوں نے انکار کیا تو فرمایا کیا قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ کے حکم پر اترو گے ، اس پر وہ راضی ہوگئے اور سعد بن معاذ کو ان کے بارے میں حکم دینے پر مامور فرمایا ، حضرت سعد نے حکم دیا کہ مرد قتل کردیے جائیں عورتیں اور بچے قید کیے جائیں پھر بازار مدینہ میں خندق کھودی گئی اور وہاں لاکران سب کی گردنیں ماری گئیں، ان لوگوں میں قبیلہ بنی نضیر کا سردار حی بن اخطب اور بنی قریظہ کا سردار کعب بن اسد جوان تھے جو گردنیں کاٹ کر خندق میں ڈال دیے گئے پھر فرمایا وارث کیا اللہ تعالیٰ نے تم کو ان کی زمین یعنی باغ اور کھیتوں کا اور ان کے مکانات یعنی قلعوں کا اور ان کے مال نقدواسباب ومواشی کا اور وہ زمین جس پر تم نے ابھی قدم نہیں رکھے ہیں اس زمین میں سلف کا اختلاف ہے زمین سے مراد خیبر ہے جو فتح قریظہ کے بعد مسلمانوں کے قبضہ میں آیا یا وہ ہر زمین مراد ہے جو قیامت تک فتح ہوکر مسلمانوں کے قبض میں آنے والی ہے ، وکان اللہ علی کل شئی قدیرا۔ کا مطلب یہ ہے کہ بنی قریظہ پر فتح دینے کے علاوہ اور بہت سی فتوحات بھی اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہیں وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
Top